گو کہ تپدق یا ٹی بی ایک انتہائی متعدی بیماری ہے … مگر اس کا علاج کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ مریض علاج جاری رکھیں۔
ابھی حال ہی تک، وقت پر دوا لینے کے لیے مدد کے ضرورت مند ٹی بی کے مریضوں کو دوا کی ہر ایک خوراک لینے کی خاطر طبی عملے کے پاس ذاتی طور پر جانا پڑتا تھا۔ تاہم گزشتہ برس ہاروی نامی طوفان کے دوران ہیوسٹن میں مریضوں نے اپنی دوائیں لینے کے لیے اپنے آپ کو رجسٹر کروانے کی خاطر موبائل فونوں کا استعمال کیا۔ طوفان سے آنے والے سیلابوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی خلل اندازیوں کے باوجود، طبی عملے کے اراکین دور بیٹھے اپنے مریضوں کے دوا لینے کے اوقات کی تصدیق کرتے رہے۔
یہ صورت حال اب پوری دنیا میں روزمرہ کا معمول بنتی جا رہی ہے۔ افریقہ اور جنوبی ایشیا کے دیہی علاقوں سے لے کر لاطینی امریکہ تک لوگ موبائل ٹکنالوجیوں کے ذریعے صحت کی سہولتوں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ خواہ وہ صحت کے مراکز سے دور رہتے ہوں یا قدرتی آفات کی وجہ سے بے گھر ہو گئے ہوں، ٹی بی کے بہت سے مریض طبی کارکنوں سے موبائل فون یا لیپ ٹاپ کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔
صحت عامہ کی حفاظت
جب ٹی بی کے مریض چھینکتے، کھانستے یا تھوکتے ہیں تو ہوا کے ذریعے بیکٹیریا پھیل جاتا ہے۔ اس طرح سانس کے ذریعے یہ صحت مند لوگوں کے جسموں میں داخل ہو جاتا ہے۔ صحت کی عالمی تنظیم کے مطابق، یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس طریقے سے ایک حالیہ سال میں ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کو ٹی بی کا مرض لاحق ہوا۔ جب لوگ [ڈاکٹر کے] تجویز کردہ طریقے سے دوا نہیں لیتے تو اُن کے اجسام میں دوا کے خلاف مزاحمت پیدا ہو سکتی ہے جس کا ہر سال کم و بیش دس لاکھ افراد شکار ہوتے ہیں۔
پابندی سے وقت پر دوا لینا نہ صرف مریض کی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے بلکہ یہ صحت عامہ کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ‘ورچوئلی آبزروڈ تھیریپی [علاج کی دور سے کی جانے والی نگرانی] یا وی او ٹی، دونوں یعنی مریضوں اور علاج کرنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔

ٹی بی سے ہونے والی اموات میں موبائل ٹکنالوجی کمی لا رہی ہے۔ (صحت کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ ہر سال ایسی اموات دو فیصد کی شرح سے کم ہو رہی ہیں۔) اس سے بھی بڑھکر یہ بات ہے کہ دور بیٹھے صحت کی سہولتوں کی نگرانی کرنے کے لیے ٹکنالوجی کے استعمال سے نئے آلات اور ایپس بنائے جا رہے ہیں جن سے نئے روزگار پیدا ہو رہے ہیں۔