
بونی ناوا نے 19 سال کی عمر میں مس پاپوا نیوگنی کے مقابلہ حسن میں شرکت کی اور وہ دوسرے نمبر پر آئیں۔ اِس دوران انہیں کپڑوں کے ساتھ اپنے لگاؤ کا پتہ چلا۔ آج وہ سارونی ٹیلرنگ سروسز کے نام سے کاروبار کرتی ہیں اور ایسے کپڑے ڈیزائن کرتی ہیں جو اُن کے جزیرہ نما وطن کے شاندار ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔
پاپوا نیو گنی دنیا کا تیسرا سب سے بڑا جزیرہ نما ملک ہے اور اس میں 1,000 سے زائد مختلف ثقافتی گروہ ہیں جو 839 معلوم زبانیں بولتے ہیں۔ ناوا کا تعلق ‘کوکے گوبیری ادیبانہ 1’ نامی قبیلے سے ہے جس کے لوگ کینو کشتیاں بنانے اور مٹی کے برتن بنانے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا اپنے ڈیزائنوں میں روایتی نمونوں کو شامل کرنا اپنے ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنے میں مدد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
ناوا امریکی محکمہ خارجہ کی کاروباری نظامت کار خواتین کی اکیڈمی (اے ڈبلیو ای) کی سابق طالبہ ہیں۔ وہ کووڈ-19 کے دوران پڑنے والے معاشی دباؤ کے باوجود اپنے کاروبار کو پھیلانے میں مدد کرنے کی وجہ اس اکیڈمی کے دوران حاصل کی جانے والی تربیت کو قرار دیتی ہیں۔
اے ڈبلیو ای کا آغاز 2019 میں ہوا۔ اب تک اس اکیڈمی کے ذریعے 100 ممالک سے تعلق رکھنے والیں 25,000 سے زائد خواتین کو وہ علم، نیٹ ورک اور رسائی فراہم کی جا چکی ہے جن کی انہیں کامیاب کاروبار شروع کرنے یا اسے وسعت دینے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ اے ڈبلیو ای نے ‘تھنڈر برڈ سکول آف گلوبل مینجمنٹ’ کے آن لائن ‘ڈریم بلڈر’ نامی کورس کو اپنے نصاب میں شامل کیا ہے۔ اس کورس کے شرکاء کو اپنے کاروباری نظریے پر توجہ مرکوز کرنے اور حکمت عملی کی منصوبہ بندی کرنا سکھایا جاتا ہے۔
ناوا کا شمار بحرالکاہل کی تقریباً اُن 1,200 خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے اے ڈبلیو ای میں شرکت کی۔ اُن کے علاوہ دیگر خواتیں کا تعلق فجی، جزائر سولومن، نیوزی لینڈ، کک آئی لینڈ، فرانسیسی پولینیشیا، نیو اور سمووا سے ہے۔

ناوا نے کپڑے سینے کا آغاز تحفے میں ملنے والی ایک سلائی مشین سے کیا تھا۔ انہوں نے پاپوا نیو گنی کے دارالحکومت پورٹ موریسبی میں واقع ‘پی این جی گارمنٹس اینڈ ٹیکسٹائل ٹریننگ سینٹر’ نامی تربیتی مرکز میں اپنی سلائی کی مہارتوں کو بہتر بنایا۔
وبائی مرض کووڈ-19 کے پھوٹ پڑنے کے کے بعد ناؤا نے اپنی دکان بند کردی۔ آج کل وہ گھر سے کام کرتی ہیں۔ اس وقت اُن کے پاس کئی سلائی مشینیں ہیں اور کپڑے کو آپس میں جوڑنے کے لیے ایک اوور لاکر مشین بھی ہے۔
ناوا کہتی ہیں کہ “اگرچہ یہ ایک مشکل کام تھا مگر اس امریکی کہاوت کے مصداق کہ ‘وسائل کے بغیر کچھ نہ کچھ بنا لینے’ پر یقین رکھتے ہوئے میں نے بالکل یہی کام کیا۔”
وہ گھر سے کام کرنے سے جو پیسے بچاتی ہیں اُنہیں وہ اُن تربیتی پروگراموں پر لگا دیتی ہیں جن کے تحت دیہی علاقوں کی خواتین کو ابتدا سے کپڑے سینا سکھایا جاتا ہے۔ وہ دوسری خواتین کو اپنا کاروبار شروع کرنے اور مالی طور پر خود مختار بننے میں مدد کرنے کے لیے اے ڈبلیو ای سے سیکھے گئے علم کو آگے متنقل کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ “امریکی پروگراموں نے حقیقی معنوں میں مجھے تذبذب اور پریشانی کی صورت حال سے نکالا اور اپنے کاروبار کو دوبارہ کھڑا کرنے پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد کی۔”

ناوا کو امید ہے کہ ایک دن وہ سارونی ٹیلرنگ کو پاپوا نیو گنی سے باہر دیگر ممالک تک پھیلا سکیں گیں اور اپنے روایتی ڈیزائنوں کو دنیا کے ساتھ شیئر کر سکیں گیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے مارچ میں ملائیشیا میں ہونے والے اے ڈبلیو ای کے پہلے سربراہی اور علاقائی اجلاس کے دوران پہلا قدم اٹھایا۔ اس اجلاس کے دوران انہوں نے اے ڈبلیو ای کی تقریباً 200 سابق طالبات اور ایشیا اور اور بحرالکاہل کے آس پاس کے 10 ممالک کے کاروباری ماہرین کے ساتھ اپنے ڈیزائن شیئر کیے۔
اس سربراہی اجلاس سے شرکاء کو خطے کی دیگر کاروباری خواتین کے ساتھ نیٹ ورکنگ کرنے اور کاروباری خیالات شیئر کرنے کے لیے کاروباری ٹکنالوجی کے امریکی ماہرین اور مواقع تک رسائی بھی حاصل ہوئی۔
ناوا کہتی ہیں کہ ” میں اس برس 50 سال کی ہو جاؤں گی۔ اپنے ڈیزائنوں کی نمائش کرنے کا یہی وقت ہے۔”
یہ مضمون فری لانس مصنفہ نیومی ہیمپٹن نے تحریر کیا۔ محکمہ خارجہ کا تعلیمی اور ثقافتی امور کا بیورو اس کا ایک ورژن اس ے پہلے بھی شائع کر چکا ہے۔