
عائشہ اے ملک پاکستان کے سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج ہیں۔ اِن کی تقرری پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے 24 جنوری کو حلف اٹھایا۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں وہ اپنے 16 مرد رفقائے کار کے ہمراہ مل کر اپنے فرائج انجام دیں گیں۔ پاکستان میں مجموعی طور پر خواتین ججوں کی تعداد 17% ہے جبکہ اعلی عدالتوں میں یہ تعداد 4% ہے۔
انہوں نے پیرس، نیویارک، کراچی اور لندن میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے پاکستان کالج آف لا اور امریکہ کے ہارورڈ لا سکول سے قانون کی ڈگریاں حاصل کیں۔
ایک آزاد غیر سرکاری تنظیم ‘ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ [پاکستان کے انسانی حقوق کے کمشن] نے 7 جنوری کو کہا، “صنفی لحاظ سے متنوع عدلیہ سے انصاف تک لوگوں کی رسائی اور انصاف کے معیار پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔”
جسٹس عائشہ ملک پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی وکالت کے لیے جانی جاتی ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران انہوں نے غربت کے خاتمے، چھوٹے قرضوں اور دستکاری کے تربیتی پروگراموں میں غیر سرکاری تنظیموں کو قانونی مشاورت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اِن مقاصد کے حصول کے لیے بھی کام کیا۔
وہ دنیا بھر میں خواتین کے مساوی حقوق کی حامی ہیں۔ وہ انگلینڈ اور آسٹریلیا میں بچوں کی تحویل، خواتین کے حقوق اور آئینی تحفظات سے متعلق مقدمات میں ماہر گواہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔
2012 میں وہ لاہور ہائی کورٹ کی جج بنیں جو کہ سپریم کورٹ کے بعد ملک کی دوسری بڑی عدالت ہے۔
انہوں نے جنسی زیادتی سے بچ جانے والی خواتین کے “کنوارے پن کے ٹیسٹ” کو یہ کہتے ہوئے غیر قانونی قرار دینے میں معاونت کی کہ اس طرح کے ٹیسٹوں سے “متاثرہ خاتون کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔”
جسٹس عائشہ ملک پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے انسدادِ منشیات اور نفاذِ قانون کے بین الاقوامی سیکشن اور امریکی محکمہ انصاف کے بیرونی ممالک میں استغاثہ کے وکلا کی تیاری، امداد اور تربیت کے دفتر کی فنڈنگ سے منعقد کیے جانے والے کئی ایک پروگراموں میں شرکت کر چکی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں خواتین ججوں کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کی 2021 کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ وہ امریکہ کی خواتین ججوں کی قومی ایسوسی ایشن کی 2017 کی سالانہ کانفرنس میں بھی شریک ہوئیں۔ وہ اسلام آباد میں خواتین ججوں کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی اور 2018 سے لے کر 2020 تک اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والی ‘ قانون کی جیسپ بین الاقوامی فرضی عدالت کے مقابلوں’ میں ایک جج کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ایک ٹویٹ میں کہا، “ان کی پیشہ ورانہ زندگی اور ثابت قدمی پاکستان اور دیگر [ممالک کی] خواتین کے لیے ایک نمونہ ہے۔ ان کی تقرری پاکستان کے لیے ایک اہم اور تاریخی لمحے کی حیثیت رکھتی ہے۔”