جوہری مواد ہماری روزمرہ زندگی کو مالامال بناتا ہے۔ اس سے آلودگی کے بغیر بجلی پیدا کی جاتی ہے، کینسر کا علاج کیا جاتا ہے، پینے کے لیے پانی کو صاف کیا جاتا ہے اور فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ تاہم جہاں یہ جوہری مواد اِن فائدہ مند ٹکنالجیوں میں کام آتا ہے وہیں یہ اگر برے لوگوں کے ہاتھ لگ جائے تو یہ سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
جوہری مواد کی حفاظت سے متعلق کنونشن میں ترمیم کی پہلی جائزہ کانفرنس [اے/سی پی پی این ایم] میں پرامن مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے والے جوہری مواد اور سہولتوں سے متعلق چوری، سمگلنگ یا سبوتاژ جیسے جرائم کے خطرات کو کم کرنے کے لیے امریکہ اور دیگر اراکین کام کر رہے ہیں۔ یہ کانفرنس 28 مارچ سے لے کر یکم اپریل تک ویانا میں ہو رہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ہتھیاروں کے کنٹرول اور بین الاقوامی سلامتی کی انڈر سیکرٹری، بونی جینکنز نے 28 مارچ کو کانفرنس کو بتایا کہ چونکہ جوہری بجلی اور ٹکنالوجی کی ضرورتوں میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس لیے دنیا کے ممالک کو اُن ابھرتی ہوئی مشکلات کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے جو جوہری مواد اور تنصیبات کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔
جینکنز نے کہا، “یہاں ہم آج اس لیے موجود ہیں کیونکہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تمام ممالک مضبوط جوہری سکیورٹی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے علاہ یہاں موجود ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں کسی جگہ بھی جوہری دہشت گردی کی واردات کے اثرات ہم سب پر مرتب ہوں گے۔ اس ہفتے یہاں ہمارا مشن انتہائی اہم اور [ اس کا ہم سے] متعلق ہے۔”
جوہری سلامتی کو مضبوط بنانا
اے/سی پی پی این ایم کے تحت یہ ضروری ہے کہ جوہری مواد کے تحفظ کے لیے فریقین معیار طے کریں۔ اصلی کنونشن 1987 میں عمل میں آیا تھا۔ اور اس میں بین الاقوامی نقل و حمل کے دوران جوہری مواد کے تحفظ کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی۔ 2005 کی ترمیم کے ذریعے گھریلو استعمال، سٹوریج اور نقل و حمل کے دوران جوہری تنصیبات اور جوہری مواد کی حفاظت کا احاطہ کرنے کے لیے کنونشن کے دائرہ کار کو بڑہا دیا گیا۔ اس کے علاوہ اُن خلاف ورزیوں کی فہرست میں بھی اضافہ کیا گیا جنہیں بہرصورت فریقین کو جرم قرار دینا چاہیے۔ اِن میں سمگلنگ اور تخریب کاری بھی شامل ہے۔
ویانا میں اے/سی پی پی این ایم جائزہ کانفرنس میں فریقین سول جوہری مواد کی حفاظت میں بہترین طریقے، سیکھے گئے اسباق اور مشکلات ایک دوسرے کے ساتھ شیئرکر رہے ہیں۔ سی پی پی این ایم کے فریقین کی تعداد 164 ہے اور ان میں سے 129 فریقین ترامیم کے حق میں ہیں۔ اِن میں سے ایک فریق، یعنی برازیل نے حال ہی میں ترامیم کی توثیق کی ہے۔
8 مئی 2021 کو ترمیم کے نفاذ کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل، رافیل ماریانو گروسی نے مزید ممالک سے کنونشن کا فریق بننے کا یہ کہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عالمگیر پابندی جوہری مواد کی غیر مجاز نقل و حمل کو روکنے کے طریقوں میں ہم آہنگی پیدا کرے گی۔
آئی اے ای اے میں تھائی لینڈ کی مستقل نمائندہ، سفیر موراکوٹ سرسواسدی نے آئی اے ای اے کے ایک بیان میں کہا کہ اے/سی پی پی این ایم نے تھائی لینڈ کو اپنے جوہری حفاظتی اقدامات کو مضبوط بنانے میں مدد کی ہے۔ سرسواسدی نے کہا، “کنونشن اور اس میں ترمیم کا ریاستی فریق بننا تھائی لینڈ کو تعاون کو فروغ دینے اور جوہری ٹیکنالوجی اور اس کے پرامن استعمال تک رسائی کو بڑھانے کے قابل بنا رہا ہے۔”