ایرانی حکومت نے غیر ملکی صحافیوں کے اجازت ناموں کی تجدید بند کر دی ہے۔ بلکہ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اُن کے نصب العین سے اتفاق کرنے والے ایک اخبار کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ پریس کی آزادیوں کے حوالے سے انتہائی خراب شہرت کے حامل اس ملک میں پریس کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں میں دن بدن سختی آتی جا رہی ہے۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جیسن رضائیان اپنے سات اگست کے مضمون میں لکھتے ہیں، “صحافت ایران میں خاتمے کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔” اپنے مضمون میں انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ گزشتہ ماہ حکومت نے کئی ایک بڑے خبر رساں اداروں کے اجازت ناموں کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا اور غیرملکی صحافیوں کے اجازت ناموں میں مختصر مدت کی توسیع کی۔

رضائیان نے لکھا، “غیر ملکی صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں خود اپنے آپ پر سنسرشپ لگانے کی طرف راغب کرنے کی اس حکمت عملی کا استعمال، ایران جیسی آمرانہ حکومتوں کا ایک مقبول طرز عمل ہے۔”

یہی نہیں بلکہ حکومت مقامی ناقدین کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ رضائیان نے کہا گو کہ اسلامی انقلاب کے پاسداران کے حامی اخبار وطن امروز کی بندش کی وجہ، کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بتائی جا رہی ہے مگر “کوئی اس بہانے کو ماننے کو تیار نہیں۔”

رضائیان سابقہ صحافی ہیں اور امریکہ اور ایران کی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ ان کے صحافیانہ کام کی وجہ سے اُن پر جاسوسی کے الزامات لگائے گئے جس کے نتیجے میں وہ ایرانی جیل میں 18 ماہ قید کاٹ چکے ہیں۔ 2016ء میں قیدیوں کے ایک تبادلے کی وجہ سے انہیں رہا کیا گیا۔

قیدیوں کو نشانہ بنانا

حکومت کی اجازت ناموں کی تجدید میں ناکامی سے اس کی صحافیوں کے خلاف مخاصمت  بدتر شکل اختیار کر گئی ہے۔ بلاگرز اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی گرفتاریوں سمیت حکومت صحافیوں کو پابندی سے گرفتار کرتی رہتی ہے اور آن لائن اظہار آزادی کے استعمال پر پابندیاں لگاتی رہتی ہے۔  جولائی 2018 میں سرحدوں سے ماورا صحافیوں کی تنظیم کے حساب سے 20 صحافی اور انٹرنیٹ پر سرگرم نو کارکن اپنے خیالات کا آن لائن اظہار کرنے کی وجہ سے جیلوں میں قید ہیں۔

اپریل میں سرحدوں سے ماورا صحافیوں کی تنظیم نے پریس کی عالمی آزادی کے اشاریے میں 180 ممالک میں سے  ایران کی درجہ بندی 170ویں نمبر پر کی۔ انہوں نے اس کی وجوہات حکومت مخالف مظاہروں کی خبریں دینے والے صحافیوں یا سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقیدی تبصرے پوسٹ کرنے والوں کی گرفتاریاں بتائیں۔

امریکہ کے وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف پر لگائی جانے والی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آزاد پریس تک رسائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف ظریف اقوام متحدہ میں انٹرویو دیتا پھرتا ہے اور دوسری طرف ایرانی حکومت اپنے ملک کے اندر آزادیوں کو محدود کیے ہوئے ہے۔

منوچن نے کہا، “ادھر ایرانی حکومت ایرانی شہریوں کو سوشل میڈیا تک رسائی دینے سے انکار کر رہی ہوتی ہے  اور ادھر وزیر خارجہ ظریف دنیا بھر میں میڈیا کے ذریعے حکومتی پراپیگنڈہ اور غلط معلومات پھیلا رہا ہوتا ہے۔”

ایرانی صدر حسن روحانی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ حکومت سرکاری میڈیا کی طرف داری کرتے ہوئے پریس کی آزادیوں کو دباتی ہے۔ روحانی نے 21 جنوری کے ایک نشریے میں کہا، “ہماری ہاں آزاد میڈیا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری ٹی وی اور ریڈیو (کے ادارے) ہیں۔”