یہ مضمون ابتدائی طور پر وائس آف امیریکا کی فارسی سروس کے لیے تیار کیا گیا۔
میڈیا کے حقوق کے ‘رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز’ یعنی سرحدوں سے ماورا رپورٹر نامی گروپ کا کہنا ہے کہ ایران پریس کی آزادی کے عالمی اشاریے کی فہرست میں مزید نیچے چلا گیا ہے۔ اس کی وجہ ایرانی صحافیوں اور عام شہری صحافیوں کی گرفتاریوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔
پیرس میں موجود مخففا آر آیس ایف کہلانے والے اس گروپ نے پریس کی آزادی کی اپنی سالانہ درجہ بندی میں کہا کہ ایران 180 ممالک اور علاقہ جات میں سے چھ درجے نیچے گر کر 170ویں پوزیشن پر چلا گیا ہے۔ گروپ نے ایران کی “پیشہ ور اور غیر پیشہ ور صحافیوں بالخصوص سوشل میڈیا کے نیٹ ورکوں پر پوسٹ” [کرنے والے صحافیوں کی] 2018ء میں روز افزوں گرفتاریوں کو اس کی وجہ قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق ایران کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو صحافیوں کو سب سے زیادہ تعداد میں جیلوں میں بند کرتے ہیں۔
وی او اے کی فارسی سروس کے پروگرام ‘ نیوز ایٹ نائن‘ میں آر ایس ایف میں ایران پر کام کرنے والے محقق رضا معینی نے بتایا کہ ایرانی صحافیوں کی بڑھتی ہوئی گرفتاریاں گزشتہ برس اس وقت کی گئیں جب وہ ایرانیوں کی طرف سے کیے جانے والے حکومت مخالف مظاہروں کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔
گرفتار کیے جانے والے ایرانی صحافیوں پر پراپیگنڈہ کرنے اور قومی سلامتی کے دیگر ایسے جرائم کے الزامات لگائے گئے ہیں جن کا تعلق سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کے متعلق تنقیدی تبصرے پوسٹ کرنے سے ہے۔ معینی نے اِن مقدمات کو بے انصافی پر مبنی اور غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے ایران کی مذمت کی۔
سوشل میڈیا

آر ایس ایف کے مطابق ایران میں پریس کی آزادی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی ایک اور وجہ سوشل میڈیا کے خلاف کاروائیوں میں سختی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، “ایران کو اپنے کئی ایک شہروں میں احتجاجوں کی ایک ایسی لہر کا سامنا ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایران نے آن لائن اطلاعات پر پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں اور ٹیلی گرام، فیس بک اور ٹوئٹر جیسے کئی ایک ایپس کو ابھی تک بند کیا ہوا ہے۔”
معینی نے بتایا کہ حکومت کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کنٹرول اور نجی ملکیت کے پرنٹ میڈیا پر سخت پابندیوں کی وجہ سے ایران پہلے ہی آر ایس ایف کے آزادیِ پریس کے اشاریے کی درجہ بندی میں نچلی سطح پر تھا۔
ایران کی ثقات اور اسلامی راہنمائی کی وزارت ملک کے اندر اور بیرون ملک کام کرنے والے تمام خبر رساں اداروں کو لائسنس جاری کرتی ہے اوراس طرح اُن کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے۔ یہ وزارت مقامی اور غیرملکی صحافیوں کو کام کرنے کے اجازت نامے بھی جاری کرتی ہے۔
21 جنوری کو وزارت اطلاعات اور مواصلاتی ٹکنالوجی کے اہل کاروں سے تہران میں خطاب کرتے ہوئے ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے ملک میں آزادیِ پریس کی بری حالت کو عوامی سطح پر تسلیم کیا۔
انہوں نے کہا، “ہمارے ہاں آزاد میڈیا نہیں ہے۔ ہمارے ٹی وی اور ریڈیو [کے ادارے] حکومت کی ملکیت ہیں۔ اگر ہمارے ہاں میڈیا کے 500 ادارے ہوتے تو سائبر سپیس پر اتنی بھیڑ نہ ہوتی۔ [لوگ] وہاں [سائبر سپیس پر] ہر کوئی بات کرنا چاہتا ہے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔
مائیکل لِپن نے یہ مضموں وائس آف امیریکہ کے لیے تحریر کیا تھا۔ اس کی ایک طویل شکل وی او اے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔