اقوامِ متحدہ کی ایک نئی تحقیقی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جن بستیوں میں پناہ گزینوں کو پناہ دی جاتی ہے، ان کے لیے پناہ گزین بوجھ نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے برکت ثابت ہو سکتے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ڈیوس کے ایک مشترکہ تحقیقی پراجیکٹ کے مطابق، اگر پناہ گزینوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی بجائے نقد پیسے دیئے جائیں تو اس سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ محققین کی اس ٹیم نے روانڈا کے تین مختلف کیمپوں میں رہنے والے پناہ گزینوں کے حالات کا مطالعہ کیا۔
اس تحقیقی مطالعے کے سربراہ مصنف جے ایڈورڈ ٹیلر نے کہا، “ہماری تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقامی بستیوں کو پناہ گزین کیمپوں کی میزبانی سے حقیقی اقتصادی فوائد نظر آتے ہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ پناہ گزینوں کو کس قسم کی غذائی امداد مل رہی ہے، لیکن یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نقد رقم کی شکل میں پناہ گزینوں کو دی جانے والی امداد سے، ان کیمپوں کے اردگرد رہنے والوں کی اقتصادی حالت پر زیادہ اچھا اثر پڑتا ہے۔”
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ڈیوس میں زراعت کے پروفیسر، ٹیلر نے کہا کہ اس ٹیم کو پتہ چلا ہے کہ آس پاس کی بستیوں کی حقیقی آمدنی میں جو اضافہ ہوا، وہ اس امداد سے زیادہ تھا جو پناہ گزینوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملی تھی، “اور اگر پناہ گزینوں کو نقد رقم ملے، تو اس امداد کا اثر تقریباً دگنا ہو سکتا ہے۔”
جب پناہ گزینوں کو اشیائے خوردنی، ماہانہ راشن کی شکل میں ملتی ہیں، تو وہ ان اشیا کا کچھ حصہ اکثر بازاری نرخوں سے کم قیمتوں پر فروخت کر دیتے ہیں اور نقد ملنے والی رقم کو سبزیاں اور تازہ اشیاء خریدنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پناہ گزینوں کی قوتِ خرید میں اضافہ کرنا
اس تحقیقی مطالعے کے ایک شریک مصنف ارنیسٹو گونزالز نیروبی میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے علاقائی بیورو میں امداد کے اس پہلو پر کام کرتے ہیں جس کا تعلق نقد رقم کی شکل میں امداد سے ہے۔ انھوں نے کہا، “جب پناہ گزینوں کو اشیاء کے بجائے نقد رقم ملتی ہے، تو انہیں اس سے اپنے کھانے پینے کی چیزوں کے انتخاب پرزیادہ اختیار حاصل ہو جاتا ہے، بلکہ اس سے ان کی قوتِ خرید بھی بڑھ جاتی ہے، اور اس طرح مقامی معیشت میں ان کی شرکت کی قوت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔”
تاہم ورلڈ فوڈ پروگرام نے انتباہ کیا ہے کہ ایسے کیمپوں میں جہاں فعال منڈیاں موجود نہیں یا جہاں غذائی وسائل کی قلت ہے، اشیائے خوردنی کے راشنوں کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔
روانڈا، ملک بھر میں پھیلے ہوئے پانچ کیمپوں میں 150,000 سے زیادہ پناہ گزین کی میزبانی کر رہا ہے۔
لیکن تحقیق کے ان نتائج کا اطلاق دنیا میں پھیلی ہوئی کہیں زیادہ وسیع کمیونٹی پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ آج کل یورپ اپنے ساحلوں تک پہنچنے والی پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کو جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی، بسنے کی جگہ دینے اور انہیں معاشرے میں ضم کرنے کی جدو جہد میں مصروف ہے۔
اقوامِ متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی، یو این ایچ سی آر کے مطابق 2015ء میں دنیا بھر میں 6 کروڑ 53 لاکھ لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو ئے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے ۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ تعداد 10 فیصد زیادہ ہے۔ ان میں سے نصف بچے ہیں۔
یہ مضمون شروع میں وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔