
ووٹنگ کے امتیازی قوانین، غلط معلومات، انٹرنیٹ بلیک آؤٹ، شہری تعلیم کی کمی کا شمار اُن رکاوٹوں میں ہوتا ہے جو نوجوانوں کو اپنے ممالک کی جمہوریتوں میں حصہ لینے سے روکتی ہیں۔
لِن روز جین جینن کا تعلق فلپائن سے ہے اور وہ پیس-فلپائن کی نوجوان خواتین لیڈروں کی انتظامی کمیٹی اور نوجوانوں کی قیادت میں کام کرنے والی “کمیونٹی آف ڈیموکریسی” [جمہوریتوں کی کمیونٹی] کی رکن ہیں۔ جینن کہتی ہیں،”جمہوریت کا تعلق عمل اور آواز سے ہے۔ اس کا تعلق ہر ایک کو فیصلہ سازی میں عمل کی اور بولنے کی اجازت دینے سے ہے۔ اسی طرح اس کا تعلق ایسے مسائل میں بولنے کے مواقع سے بھی ہے جو اُن کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ [مگر] یہ موقع علامتی نہیں بلکہ بلاواسطی اور بامعنی ہونا چاہیے۔”
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے جمہوریت کے سربراہی اجلاس سے قبل 8 دسمبر کو “ینگ ڈیموکریٹک لیڈرز” کے مباحثے کے دوران جینن اور تین دیگر سرگرم نوجوان کارکنوں کو سنا۔
ان نوجوان لیڈروں نے جن موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اُن کا تعلق کمیونٹی کو منظم کرنے کے اپنے تجربات، جمہوریت کی اہمیت کی وجوہات اور حکومتوں کے نوجوان نسلوں کو اپنے ہاں جمہوریتوں میں شامل کرنے کے لیے درکار اقدامات سے تھا۔
بلنکن نے کہا، “صدر بائیڈن کی اولین ترجیحات میں سے ایک ترجیح اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمیں درپیش بڑے بڑے مسائل اور چیلنجوں کے بارے میں نوجوانوں کی رائے سنی جائے اور یہ کہ دنیا کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان [نوجوانوں] کے نقطہائے نظر کو ہماری پالیسیوں میں کیسے سمویا جائے۔”
I am so grateful to the @USAIDZambia @usembassyzambia for always being supportive in my leadership development. Today’s session with @SecBlinken gave me an opportunity to share on the hope that young people bring to the global front in safeguarding the future of democracy. pic.twitter.com/rXIayuhaqQ
— Mwila Chriseddy Bwanga (@MwilaChriseddy) December 8, 2021
2020 میں چلی میں سرگرم کارکنوں نے استصواب رائے کا مطالبہ کیا یعنی اس بات کے تعین کا مطالبہ کیا کہ ملک کا آئیں دوبارہ لکھا جائے یا نہیں۔ اس رائے شماری کے حق میں 78 فیصد ووٹ ڈالے گئے اور اسے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔
چلی کے اہورا نوس ٹوکا پارٹیسیپار کی عوامی حمایت حاصل کرنے کی رابطہ کار، مارگریٹا مائرا کہتی ہیں کہ یہ استصواب رائے صرف اس لیے کامیاب ہوئی کیونکہ نوجوانوں نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بنیادی سطحوں پر کوششیں کیں۔
انہوں نے کہا، “یہ واضح ہوا کہ [نوجوان نسلیں] قابل، طاقتور، انتھک، بالغ نظر، ذہین، اور کھلے دل والی ہے۔”
زیمبیا کے مویلا کریسیڈی بوانگا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جب جمہوریت کی بات ہوتی ہے تو نوجوانوں کو وہ تبدیلی لانا چاہیے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
“بی ریلیونٹ افریقہ” نامی تنظیم کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر بوانگا نے کہا، “نوجوان اپنے ووٹ کو منظم اور اس کا دفاع کر سکتے ہیں اور جمہوریت کا دفاع کر سکتے ہیں اگر وہ ایسا کرنا چاہیں تو۔”
نوجوانوں کی آوازوں کی طاقت سب سے زیادہ اس وقت سامنے آتی ہے جب حکومتیں انہیں خاموش کرانے کی کوششیں کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا، “یہ چیز عام طور پر دیکھنے میں آئی ہے [اور یہ] افریقی خطے میں معمول کی بات ہے کہ انتخابی عمل کے دوران انٹرنیٹ کو بند کر دیا جاتا” ہے۔
بلنکن نے تمام شرکاء سے کہا کہ اپنے ممالک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے وہ جو کام کرنے کے خواہشمند ہیں اُس کی ایک فہرست تیار کریں۔ نوجوان رہنماؤں نے متفقہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ وقت اور پیسے کی مزید سرمایہ کاری بہت ضروری ہے۔
پینلسٹوں کے مطابق حکومتوں کو مندرجہ ذیل کام کرنے چاہیئیں:-
- ووٹنگ کے جمہوری عملوں کو فروغ دینے والی شہری تنظیموں میں سرمایہ کاری کریں۔
- مقامی اور قومی سطح پر نوجوانوں کی تنظیموں کے لیے مالی اعانت اور اُن کی سرپرستی کریں اور انہیں سکھائیں کہ اپنی سرگرمیوں کو کس طرح بڑھانا ہے۔
- جہاں اقتدار شیئر کیا جاتا ہو وہاں نوجوانوں اور بالغوں کے درمیان اشتراک پیدا کیا جائے۔
- سرکاری سکولوں کی سطح پر سب کے لیے شہری تعلیم کو ترجیح بنایا جائے۔
کمیونٹی آف ڈیموکریسیز کی پروگرام آفیسر یوکرین کی ڈاریا اونیشکو نے کہا، “میری سب سے بڑی تجویز نوجوانوں کو شراکت دار کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔ نوجوانوں میں دینے کی زبردست صلاحیت اور مہارت پائی جاتی ہے۔”