نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ( این وائی پی ڈی) کے لیفٹینٹ عدیل رانا کہتے ہیں، “جب میں نیو یارک میں پل بڑھ رہا تھا تو میں نے کسی مسلمان پولیس افسر کو نہیں دیکھا۔”
عدیل رانا کہتے ہیں،” میرے پولیس مین بننے کی ایک وجہ میری کمیونٹی اور اگلی نسل تھی یعنی وہ اپنے جیسے کسی شخص کو ایک پولیس مین کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔” وہ اپنے خاندان کے ہمراہ 1980 کے عشرے کے اواخر میں پاکستان سے ترک وطن کر کے امریکہ آئے اور 2004 میں وہ پولیس افسر بن گئے۔
کمیونٹی پولیسنگ کا پہلا اصول یہ ہے کہ پولیس افسران کو لازماً انہی لوگوں کا حصہ ہونا چاہیے جن کے لیے وہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ امریکہ کے طول وعرض میں مختلف نسلی اور لسانی آباد یوں کے پیش نظر، پولیس کے محکمے ایسے منصوبوں کا اہتمام کرتے ہیں جو اس تنوع کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
’’لوگ جب اپنے ہی طرح کے کسی شخص کو دیکھتے ہیں تو پھر یہ ان کے لیے ایک طرح کی حقیقت بن جاتی ہے:
اچھا، اگر وہ یہ کام کرسکتے ہیں تو میں بھی یہ کام کرسکتا ہوں۔‘
ـــــ ایٹلانٹا کے ایل جی بی ٹی کے رابطہ کار یونٹ کے ایرک کنگ
آئیے اس وقت جاری کچھ پروگراموں پر نظر ڈالتے ہیں:
- جارجیا، ایٹلانٹا کے پولیس آفسر ایرک کنگ جب کبھی (ایل جی بی ٹی) یعنی ہم جنس پرست عورتوں اور مردوں، دو جنسی افراد، مختلف جنسی رحجانوں کے حامل افراد کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہیں تو وہ پولیس میں بھرتی ہونے کے بارے میں معلوماتی مواد بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ کنگ نے ذاتی طور پر ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران چار افراد کو بھرتی کیا جنہوں نے پچھلے دو برسوں کے دوران ایٹلانٹا پولیس اکیڈمی سے گریجویشن کی ہے۔
- منیاپولِس کے پولیس ڈپارٹمنٹ میں چھ افسروں کا تعلق شہر کی صومالی کمیونٹی سے ہے اور مزید کو بھرتی کیا جارہا ہے۔ صومالی افسر دوسروں تک پہنچنے کی سرگرمیوں میں متواتر شریک رہتے ہیں۔ چیف جینی ہارٹیو نے کہا کہ ہمارے رنگروٹ بھرتی کرنے والے بعض بہترین افسر کمیونٹی کے ارکان ہیں۔
- نیو یارک شہر میں 11 /9 کے حملے کے بعد وہاں مسلم کمیونٹی میں سے لوگوں کو بھرتی کرنے کی ایک منظم کوشش کی گئی تھی۔ آج، پندرہ سال بعد نیویارک کے محکمہ پولیس میں 1,400 مسلمان ہیں۔ انہی میں سے ایک، عدیل رانا بھی ہیں۔

ریاست ایریزونا کے شہر ٹُو سان کے پولیس چیف، کرس میگنوَس کا کہنا ہے،’’ہم ملک بھر میں پولیس کے چھوٹے اور بڑے محکموں میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے حقیقی معنوں میں کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ہم جن لوگوں کو بھرتی کریں وہ اسی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوں جس میں وہ رہتے ہیں۔‘‘