امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک تاریخی ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان فطری تعلقات پر زور دیا اور مستقبل میں قریبی فوجی اور اقتصادی روابط کا خاکہ پیش کیا۔
پومپیو نے کہا، “ہماری دونوں اقوام مشترکہ جمہوری اقدار، انسانی حقوق کے احترام اور آزادی کے مشترکہ عزم کے ذریعے متحد ہیں۔ ان مشترکہ اقدار کا فطری نقطہ آغاز آزاد اور کھلے بحر ہند اور بحر الکاہل ہیں
پومپیو نے بحیثیت وزیر خارجہ بھارت کے اپنے پہلے دورے کو ایک تاریخی دورہ قرار دیا کیونکہ یہ اُن کا اور وزیر دفاع جِم میٹس کا اپنے بھارتی ہم منصبوں، سوراج اور وزیر دفاع نرملا سیتھا رمن سے ملاقات کا پہلا موقع تھا۔ اس ملاقات کو “امریکہ – بھارت ٹو پلس ٹو وزارتی مذاکرات” کا نام دیا گیا ہے۔
سیتھا رمن نے اس ملاقات کو “ہمارے دو طرفہ روابط میں ایک اہم موڑ” قرار دیا۔ گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کے حوالے سے، امریکہ اور بھارت نے ایک ایسے بنیادی ڈھانچے پر اتفاق کیا ہے جو دونوں ممالک کو جدید ترین فوجی ٹکنالوجی میں شریک ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کی افواج قریبی طور پر مل کر کام کر سکیں گی اور حساس معلومات کا تبادلہ کر سکیں گی۔

پومپیو نے اس بات پر زور دیا کہ اپنی شرکت داری کے ذریعے امریکہ اور بھارت کو سمندروں کی آزادی اور آسمانوں کی آزادی؛ علاقائی اور سمندری تنازعات کے پرامن حل کی سربلندی؛ منڈی کی بنیاد پر چلنے والی معیشت کے فروغ؛ اچھی حکمرانی، بنیادی حقوق و آزادیاں؛ اور خارجی اقتصادی جبر کو روکنے کو یقینی بنانا جاری رکھنا چاہیے۔”
بھارت پہلے سے ہی کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں امریکہ کے ساتھ زیادہ فوجی مشقیں کررہا ہے۔
امریکہ بھی جس کی معیشت دنیا میں سب سے بڑی ہے بھارت کے ساتھ زیادہ کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی معیشت کے بارے میں تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ 2030ء تک یہ تیسری بڑی معیشت بن جائی گی۔ سوراج نے کہا، “ہم بھارت میں تیز سماجی اقتصادی تبدیلی لانے کے لیے کی جانے والی اپنی کوششوں میں امریکہ کو اپنے چنیدہ شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔”
ترقی کرتی ہوئی بھارتی معیشت کو بڑھاوا دینے کے لیے ‘نیوکلیئر پاور کارپوریشن آف انڈیا’ اور ایک امریکی فرم ‘ویسٹنگ ہاؤس الیکٹرک کمپنی’ بھارت میں بجلی کے چھ نیوکلیئر پلانٹوں کی تعمیر پر کام کر رہی ہیں۔
پومپیو نے کہا، “ایسے میں جب ہم اپنے اُن تعلقات کو مضبوط بنا رہے ہیں جو 21ویں صدی کی صورت گری کریں گے، ہماری اقوام اکٹھی مل کر خوشحالی اور سکیورٹی کے مشترکہ مقاصد حاصل کر سکتی ہیں۔”