
امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر ایران پر عائد ہتھیاروں کی پابندی میں توسیع کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ ایرانی حکومت بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔
پومپیو نے 30 جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ کہ دنیا کے دہشت گردی کے سرکردہ سرپرست کَے خلاف لگائی گئی ہتھیاروں کی پابندی میں توسیع میں ناکامی اس تنظیم کے بہترین آدرشوں سے روگردانی ہوگی۔
پومپیو نے کہا، “اس ایوان کو ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے: (ایوان) بین الاقوامی امن و سلامتی کے ساتھ کھڑا ہو جائے جیسا کہ اقوام متحدہ کے بانیوں نے ارادہ کیا تھا، یا اسلامی جمہوریہ ایران پر لگائی گئی ہتھیاروں کی پابندی کو ختم ہونے دے۔ اگر آپ (پابندی میں توسیع کے لیے) قدم اٹھانے میں ناکام رہتے ہیں تو ایران وہ روسی ساختہ لڑاکا طیارے خریدنے میں آزاد ہوگا جو 3،000 کلومیٹر کے فاصلے تک حملے کر سکتے ہیں اور اس سے ریاض، نئی دہلی، روم اور وارسا جیسے شہر ایرانی نشانے کی زد میں آجائیں گے۔”
اقوام متحدہ نے غیرمعینہ مدت کے لیے پابندی میں توسیع کرنے کے لیے قرارداد کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ یہ پابندی 18 اکتوبر کو ختم ہونے جا رہی ہے۔
امریکی حکام کہہ چکے ہیں کہ امریکہ ایرانی حکومت کے اسلحے کی فروخت پر پابندی کو “دوبارہ لگا” سکتا ہے۔ لیکن پومپیو نے کہا کہ ان کی “غالب ترجیح” پابندی میں توسیع کی خاطر کونسل کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔

پابندی میں توسیع کے لیے وزیر خارجہ کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایران کی حکومت اقوام متحدہ کی روایتی ہتھیاروں کی پابندی کو نظر انداز کر رہی ہے۔
اس رپورٹ سے متعلق ایک امریکی حقائق نامے کے مطابق یہ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ 14 ستمبر 2019 کو استعمال ہونے والے ہتھیار ایران سے آئے تھے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے رہنما بھی اس حملے کے لیے امریکہ کے ایران کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے میں امریکہ کے ساتھ شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا کہ ایران کی حکومت مشرق وسطی میں اپنے آلہ کاروں اور دہشت گرد تنظیموں کو ہتھیار فراہم کرکے اس پابندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اسی طرح حقائق نامے میں بتایا گیا ہے کہ نومبر 2019 اور فروری 2020 میں یمن کے ساحل کے قریب قبضے میں لیے گئے ہتھیاروں کے ذخائر ایران ہی سے آئے تھے۔
ایران کی حکومت نے مئی اور جون 2019 میں آبنائے ہرمز کے قریب تجارتی بحری جہازوں پر بھی بارودی سرنگوں کے حملے کیے۔ جنوری 2020 میں ایرانی حکومت نے عراق میں اتحادی افواج پر میزائلوں کے حملے کیے۔
امریکہ اقتصادی پابندیوں کوایران کی حکومت کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کو ترک کرنے اور مشرق وسطی میں اس کے نیابتی گروہوں کے ذریعہ دہشت گردی کی مالی اعانت اور تشدد کو ہوا دینے کو بند کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
پومپیو نے کونسل کو بتایا کہ اگر یہ پابندی ختم ہوجاتی ہے تو ایران کی حکومت بین الاقوامی جہاز رانی کو مزید خطرات سے دوچار کرنے کے لیے اپنی آبدوزوں کو بہتر بنائے گی اورشام، وینیزویلا اور افغانستان میں تصادم کی آگ بھڑکانے کے لیے اور زیادہ تعداد میں جدید ہتھیار فروخت کرے گی۔
پومپیو نے کہا، “ایران پابندی کی میعاد ختم ہونے کی تاریخ سے پہلے ہی ہتھیاروں کی پابندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر پابندیاں اٹھا لی جاتیں تو (پھر کیا صورت حال ہوتی) جب اس گروپ (اقوام متحدہ) کی جانب سے ایرانی سرگرمی کی منظوری ہوتی، اجازت ہوتی۔”
Iran does not deserve to have the arms embargo lifted. pic.twitter.com/HIri6hFKbf
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) July 2, 2020