
وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اس کی بیلسٹک میزائلوں کی اندھا دھند سرگرمیوں پر کاروائی کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سرگرمیاں مشرق وسطٰی اور یورپ بھر کے لوگوں کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔
12 دسمبر کو انہوں نے سکیورٹی کونسل سے کہا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار لے جانے کی استعداد رکھنے والے بیلسٹک میزائلوں کے تجربات کرنے سے روکے۔
وزیر خارجہ نے کہا، “ایران نے اقوام کی خیرسگالی سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور بیلسٹک میزائلوں کی مضبوط قوت کی تلاش میں بے شمار مرتبہ سلامتی کونسل کی قرارادوں کو پس پشت ڈالا ہے۔ امریکہ کبھی بھی اس کی حمایت نہیں کرے گا۔”
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے پاس اس بارے میں ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ایران نے یمن میں حوثی باغیوں کو میزائلوں کے نظام برآمد کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عراق میں شیعہ ملیشیاؤں کو بھی میزائلوں کے نظام منتقل کیے ہیں۔
بعد ازاں پومپیو نے اخباری نمائندوں کو بتایا، “ایران تجربات کی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور ایران [ہتھیاروں کے] پھیلاؤ کی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور یہ کام ہر صورت ختم ہونا چاہیے۔”
امریکہ 2015 کے ایرانی جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگیا ہے اور اس نے ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں ہیں۔ بقول امریکہ کے اس کی وجہ مشرق وسطٰی اور اس سے باہر ایران کا بدنیتی پر مبنی رویہ ہے۔
سلامتی کونسل نے 2010 سے لے کر 2015 تک جوہری ہتھیار لے جانے والے ایرانی میزائلوں پر مکمل پابندی عائد کیے رکھی تھی۔ تاہم سمجھوتے کے بعد سلامتی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے تہران سے یہ “کہتے ہوئے” اس پابندی میں نرمی کر دی تھی کہ وہ کسی ایسے بیلسٹک میزائل کا تجربہ نہ کرے جو جوہری ہتھیار لے جا سکتا ہو۔
پومپیو نے کہا، “اس سلامتی کونسل کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ ایرانی حکومت کی طرف سے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حقیقی خطرے کے بارے میں سنجیدگی سے کام لے۔”