وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے، “آج امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور یہ دونوں ممالک کے لیے اچھا ہے۔”
10 اکتوبر کو واشنگٹن میں “جیوش انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی آف امیریکا” [“امریکہ کی قومی سلامتی کے یہودی انسٹی ٹیوٹ] سے خطاب کرتے ہوئے پومپیو نے اسرائیل کی ایک مضبوط جمہوریت کے طور پر تعریف کی۔ اس ضمن میں انہوں نے اسرائیل کے مطلق العنان حریف، ایران اور اسرائیل کے درمیان نمایاں فرقوں کا حوالہ دیا۔
وزیر خارجہ نے انسٹی ٹیوٹ سے امتیازی خدمت کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا، “اسرائیل ہر وہ چیز ہے جو ہم آگے بڑھتے ہوئے پورے مشرق وسطٰی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ جمہوری اور خوشحال [ملک] ہے۔ یہ امن کا خواہش مند ہے۔ اور یہ آزاد پریس اور ایک پھلتی پھولتی آزاد مارکیٹ پر مبنی معیشت والا ملک ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اس کے مقابلے میں ایران کے بدعنوان لیڈر ” اپنے عوام کے انسانی حقوق پامال کر رہے ہیں ، دہشت گردی کی مالی مدد کر رہے ہیں، اور مشرق وسطٰی کے ہر کونے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔”
پومپیو نے صدر ٹرمپ کی زیرقیادت امریکی پالیسی کی تبدیلیوں کی تعریف کی۔ اِن تبدیلیوں میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور وہاں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے ( جیسے عام فہم” اقدامات) کے ساتھ ساتھ 3.8 ارب ڈالر سالانہ کی اسرائیل کو فوجی امداد دینے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ یہ امداد 2019ء سے شروع ہوگی اور آج تک اسرائیل کو دی جانے والی امدادوں میں سب سے بڑی امداد ہوگی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹرمپ نے “اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے دستبردار ہو کر بین الاقوامی سٹیج پر یہود دشمنی کے خلاف موقف اختیار کیا۔” یہ کونسل اکثر اسرائیل کو مورد الزام ٹھہراتی رہتی ہے۔
پومپیو نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ “اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے لیے حقیقی معنوں میں ایک تاریخی کوشش میں مصروف ہے۔” اس ضمن میں تاحال تفاصیل جاری نہیں کی گئیں۔
انہوں نے ایران پر شام میں ایسا ایک اور محاذ کھولنے کا الزام لگایا “جہاں سے اس کے نیابت دار اسرائیل کو خوف زدہ کر سکتے ہوں۔”
پومپیو نے کہا کہ امریکہ “شامی خانہ جنگی کے پرامن سیاسی حل اور تمام ایرانی اور ایران کی حمایتی قوتوں کی بے دخلی” کے لیے کوشاں ہے۔
ایران کے خلاف انتظامیہ کی کڑی پابندیوں اور سفارتی اور اقتصادی دباؤ کا مقصد بڑا سادہ ہے: یعنی اُس آمدنی کو ختم کرنا جو حکومت دہشت اور افراتفری پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہے، جس سے اپنے جوہری پروگرام چلاتی ہے، اور جس سے اپنی جیبیں بھرتی ہے حالانکہ یہ پیسے ایرانی عوام کو دینے جانے چاہیئیں۔
پومپیو نے کہا کہ صدر کی پالیسی کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہے کہ “اسرائیل کو تمام ممالک کی طرح اپنی خود مختاری کے دفاع کا حق حاصل رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم شام کے اندر ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کو اس [اسرائیل] کی طرف سے نشانے بنانے کے حق کی حمایت اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک وہ اسرائیل کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔”
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ کے بارے میں جاننے کے لیے یہ وڈیو ملاحظہ فرمائیں۔