
ایشیا کے اپنے دورے کے موقع پر امریکہ کے وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے”بحرہند اور بحرالکاہل میں سلامتی کے امور میں تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے” تقریباً 30 کروڑ ڈالر کی رقم کا اعلان کیا ہے۔ بحرہند اور بحرالکاہل کا خطہ بھارت سے لے کر بحرالکاہل تک پھیلا ہوا ہے۔
وزیر خارجہ نے 4 اگست کو کہا کہ یہ نئی رقم مجموعی طور پر “سمندری سلامتی کو مضبوط بنائے گی، انسانی امداد اور امن کی صلاحیتیں پیدا کرے گی اور سرحدوں سے ماورا لاحق خطرات کا سدباب کرنے والے پروگراموں کی تعداد میں اضافہ کرے گی۔”
سلامتی کی امداد بنگلہ دیش، انڈونیشیا، منگولیا، نیپال، بحرالکاہل کے جزائر، فلپائن، سری لنکا، ویت نام اور دیگر ممالک میں پراجیکٹوں کے لیے مالی وسائل فراہم کرے گی۔
اس کاوش میں مشرقی ایشیا کو بحرہند سے ملانے والی خلیج بنگال کے بحری راستوں کا ایک منصوبہ بھی شامل ہے۔ امریکہ تجارتی بحری معلومات کے تبادلوں کے لیے بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ اس علاقے میں سکیورٹی کو بہتر بنایا جاسکے اور ابھرتے ہوئے خطرات کا مقابلے کیا جاسکے۔
پومپیو جنوبی ایشیائی اقوام کی تنظیم آسیان کے 51ویں اجلاس کے سلسلے میں ایشیا کے دورے پر تھے۔ آسیان اگست 1967 میں اُن پانچ ممالک نے تشکیل دی تھی جو جنوبی ایشیا کی مشکلات سے نمٹنے کے لیے اکٹھے مل کر کام کرنا چاہتے تھے۔ آج اس تنظیم میں شامل رکن ممالک کی تعداد 10 ہے۔
شراکتداریوں کی تعمیر
اس منصوبے کے مطابق امریکہ ایسے پروگرام ترتیب دینے میں مدد کرے گا جو اِن ممالک کے ساحلوں اور پانیوں کی واضح تصویر پیش کریں گے۔ “علاقائی باخبری” کے ان نظاموں میں عملے اور عملے کے بغیر ہوائی جہاز اور کشتیاں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نظام قدرتی آفات کے موقع پر امدادی کاموں کے دوران تلاش اور انسانی جانیں بچانے کی صلاحتیتوں کو بھی بہتر بنائیں گے۔
امریکہ انسانی بیوپار اور منشیات کی سمگلنگ کو روکنے اور قانونی کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کی خاطر خطے کے ممالک کے ساتھ شراکتداری کرے گا۔ پہلے سے ہی امریکہ “شِپ رائیڈر” پروگراموں کے ذریعے کئی ممالک کی مدد کر رہا ہے۔ ان پروگراموں کے تحت ساحلی ممالک کے قانون نافذ کرنے والے افسران امریکی جہازوں پر سفر کر سکتے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کے مخصوص اقتصادی زونوں میں غیرقانونی سرگرمیاں کرنے والوں پر مقدمات چلاسکتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا، “ہم بحرہند اور بحر الکاہل کے خطے میں آسایان کی مسلسل مرکزیت کے متمنی ہیں۔”