تیاننمن سکوائر کے احتجاجی مظاہروں کی 30ویں برسی کے موقع پر وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چینی حکومت سے ” ہلاک یا لاپتہ ہونے والے تمام افراد کو مکمل اور سرکاری طور پر شمار کرنے کا کہا ہے تاکہ تاریخ کے اس سیاہ باب کا شکار ہونے والے بہت سے افراد کو تسلی دی جا سکے۔”
4 جون 1989 کواس وقت ہونے والی اموات، زخمیوں یا گرفتاریوں کی کبھی کوئی سرکاری تعداد نہیں بتائی گئی جب مسلح فوجیوں نے جمہوریت کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کو قدیم محل کے احاطے سے باہر نکالنے کے لیے اُن پر ہلہ بول دیا تھا۔
اس واقعہ کا سرعام اقرار کرنے والے شہریوں کو اس کی برسی کے قریب گرفتار کرنا معمول بن چکا ہے۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے مطابق کم از کم دو درجن ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے 2017ء میں اس واقعے کی اٹھائیسویں برسی منانے کا بندوبست کیا یا اس سلسلے میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کی۔
1989ء کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے پومپیو نے کہا کہ زیادہ کھلے اور روادار چین کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔
انہوں نے کہا، ” آج، چینی شہریوں کو زیادتیوں کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ بالخصوص شنجیانگ میں، کمیونسٹ پارٹی کی قیادت ایک منظم انداز سے ویغور ثقافت کا گلا گھونٹ رہی ہے اور مذہب اسلام کا نام و نشان مٹا رہی ہے۔”
وزیر خارجہ نے چینی شہریوں کی اپنے انسانی حقوق کو استعمال کرنے، انصاف حاصل کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی مصمم کوششوں کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا، ” ہم چینی عوام کے اُن ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں جو 30 سال قبل تیاننمن سکوائر میں اپنے حقوق کے مطالبے پر دلیری سے ڈٹ گئے۔ اُن کی مثالی جراًت نے دنیا بھر کی آزادی اور جمہوریت کا مطالبہ کرنے والی بعد میں آنے والی نسلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔”