وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو طویل عرصے سے چلے آ رہے مشترکہ مفادات کے فروغ کے لیے شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، وزیر خارجہ فیصل بن فرحان اور دیگر سعودی اہل کاروں سے ملاقاتیں کرنے کے لیے 19 تا 21 فروری سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔
سعودی عرب پومپیو کے 2018 کے مشرق وسطی کے دورے کے دوران پہلا پڑاؤ تھا جس سے امریکہ اور سعودی عرب کی دوستی کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔
پومپیو اپنی توثیق کے فورا بعد بین الاقوامی سفر پر روانہ ہونے والے پہلے وزیر خارجہ ہیں۔ سینیٹ سے اپنی توثیق کے 2 گھنٹے کے اندر اندر وہ اپنے طیارے میں بیرونی دورے پر روانہ ہوگئے۔ مشرق وسطی کا دورہ شروع کرنے پہلے وہ برسلز گئے۔ اس دورے میں وہ اسرائیل اور اردن کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی گئے۔
صدر ٹرمپ نے بھی صدر منتخب ہونے کے بعد اپنا پہلا بین الاقوامی دورہ سعودی عرب کا ہی کیا تھا۔ وہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سعودی بادشاہ سے ملنے والے ساتویں امریکی صدر ہیں۔
پہلی ملاقات 1945ء میں اس وقت ہوئی جب امریکی صدر فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ نےشاہ عبد العزیز ابن سعود (شاہ سلمان کے والد) کو بحری جہاز “یو ایس ایس کوئنسی” پر اس وقت مدعو کیا جب وہ یالٹا کانفرنس کے بعد وطن واپس آ رہے تھے۔ اس کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور سوویت قائد جوزف سٹالن نے جنگ کے بعد کے یورپ کے مستقبل پر بات چیت کی تھی۔
صدر روز ویلٹ نے شاہ ابن سعود کے ساتھ اس ملاقات کی درخواست کی تھی کیونکہ وہ خطے کے مستقبل کے لیے سعودی عرب کی تزویراتی اہمیت اور عالمی معیشت میں سعودی عرب کے اہم کردار سے آگاہ تھے۔
شاہ ابن سعود نے صدر روز ویلٹ کے ساتھ اس ملاقات کی دعوت کو شوق سے قبول کیا۔ 1932ء میں تخت پر بیٹھنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی فرمانرواہ ملک سے باہر گئے۔ ان کے ساتھ ان کے 48 مشیر اور خادم بھی تھے۔

اس ملاقات میں مترجم کی خدمات سر انجام دینے والے کرنل ولیم ایڈی کہتے ہیں کہ پہلی ملاقات میں ہی دونوں قائدین کے درمیان فوری قربت پیدا ہوگئی۔ شاہ ابن سعود نے کہا کہ وہ اور صدر روز ویلٹ دونوں ہم عمر، سربراہانِ مملکت، “مزاجاً کسان” اور مختلف جسمانی معذوریوں کا شکار ہیں۔ (صدر وہیل چئیر پر تھے جبکہ شاہ لاٹھی کا سہارا لیتے تھے)۔ یہ تمام مشترکات دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئے۔
صدر روز ویلٹ اور شاہ ابن سعود نے سعودی عرب کے لیے امریکہ کی طرف سے فوجی اور زرعی امداد اور دونوں اقوام کے درمیان دوستی سمیت کئی ایک معاملات پر بات چیت کی۔
گو کہ یہ بات چیت صرف چند گھنٹوں پر محیط تھی، لیکن اس ملاقات نے دونوں رہنماؤں پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ اس ملاقات کے نتیجے میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مستقبل کے تعلقات کا ڈھانچہ تشکیل پایا۔ ملاقات کے اختتام پر دونوں رہنماؤں نے عربی قہوہ پیا اور اپنی دوستی کو دوام بخشا۔
بعد میں صدر روز ویلٹ نے کہا، “میں نے ابن سعود کے ساتھ 5 منٹ کی گفتگو میں [مشرق قریب] سے متعلق اتنا کچھ سیکھا جتنا میں 2 یا 3 درجن خطوط کا تبادلہ کر کے سیکھ پاتا۔”

صدر روز ویلٹ نے شاہ ابن سعود کو اپنی وہیل چیئروں میں سے ایک وہیل چیئر تحفے میں دی جسے بعد ازاں شاہ نے “اپنا سب سے قیمتی اثاثہ” قرار دیا۔
اس دورے کے 2 ماہ بعد صدر روز ویلٹ کا انتقال ہو گیا اور یہ دورہ ان کا آخری بیرونی دورہ ثابت ہوا۔ تاہم انہوں نے اور شاہ ابن سعود نے دونوں اقوام کے درمیان کئی دہائیوں پر محیط دوستی کی بنیاد رکھ دی۔
ایک مختلف شکل میں یہ مضمون 20 مئی 2017 کو ایک بار پہلے بھی شائع ہو چکا ہے۔