4 people standing in front of a building (State Dept./D.A. Peterson)
ویغور محکمہ خارجہ میں (بائیں سے دائیں): فرکات جوددت، مہرگل ترسن، گل چہرہ ہوجہ اور عرفات ایرکن۔ (State Dept./D.A. Peterson)

مہرگل ترسن پر شنجیانگ میں واقع چین کے ایک حراستی کیمپ میں کیے جانے والے تشدد اور مار پیٹ سے زندہ بچ نکلیں۔ ترسن نے بتایا، “میری ایک کوٹھڑی میں نو عورتیں ہلاک ہوئیں۔”

انہوں نے اپنی کہانی 26 مارچ کو وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ہونے والی ایک ملاقات کے دوران سنائی۔ اس ملاقات میں اُن کے ساتھ وہ ویغور امریکی بھی موجود تھے جن کے خاندان یا تو اب بھی اِن کیمپوں میں زیرحراست ہیں یا اُنہیں مجرمانہ انداز سے سزا دے کر جیلوں میں بند کر دیا گیآ ہے۔

مغربی چین میں واقع یہ کیمپ چینی حکومت کی اقلیتوں کی نسلی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی شناختوں کو مٹانے کی ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہیں۔ اپریل 2017 کے بعد دس لاکھ سے زائد ویغوروں، قازقوں اور دیگر مسلمان اقلیتی گروہوں کے افراد کو اِن کیمپوں میں قید کیا جا چکا ہے۔

فرکات جودت نے بتایا، “مجھے یہ تک علم نہیں کہ [میری والدہ] ابھی تک زندہ ہیں بھی یا نہیں۔” فروری 2018 میں چینی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی اپنی والدہ کی گرفتاری کے بعد فرکات کو اب تک اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ چین کے حراستی کیمپوں میں لوگوں کو بار بار مارے پیٹے جانے، اُن پر تشدد کیے جانے، انہیں اسلام ترک کرنے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے پراپیگنڈے کو زبانی طور پر یاد کرنے پر مجبور کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

عرفات ایرکن 2015ء سے لاپتہ اپنی والدہ اور والد سمیت خاندان کے 11 افراد کے بارے میں پریشان ہیں۔ 2015ء میں تعلیم کے لیے امریکہ آنے والے ایرکن کہتے ہیں، میں نے اپنی زبان بند رکھی۔ میں سیاست سے دور رہا۔ اس کے باوجود میرے والدین کو حراست میں لے لیا گیا۔” انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان سے رابطہ نہیں کرتے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ “یہ [اُن کے] لیے مشکل کا باعث بن جائے۔”

جبرِ مسلسل کی مہم

گل چہرہ ہوجہ کے2001ء میں صحافی بننے کے لیے امریکہ آنے کے بعد، اُن کے 24 رشتہ داروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

Woman wearing headscarf (State Dept./D.A. Peterson)
گل چہرہ ہوجہ نے اپنے خاندان کے افراد کی چینیوں کے ہاتھوں گرفتاری پر بات چیت کے لیے وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی۔ (State Dept./D.A. Peterson)

ہوجہ کو بتایا گیا کہ ویغور مسائل کے بارے میں اُن کی رپورٹنگ، شنجیانگ میں اُن کے خاندان کی گرفتاری کا باعث ہے۔

جہاں تک ترسن کا تعلق ہے جب سے انہوں نے چینی کیمپوں میں اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اُس کی کہانی دنیا کو سنائی ہے اُن کو کئی مرتبہ ایسے لوگ ہراساں کر چکے ہیں جن کے بارے میں ترسن کو یقین ہے کہ وہ امریکہ میں موجود چین کے سکیورٹی ایجنٹ ہیں۔

ویغوروں کی اس ملاقات کے بعد ایک بیان میں پومپیو نے چینی ظلم و زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر ویغوروں کی بہادری کی تعریف کی اور اسلام اور دیگر مذاہب کے خلاف جبر کی چینی مہم کو ختم کرنے میں امریکی حمایت کا وعدہ کیا۔

26 مارچ کو محکمہ خارجہ میں ہونے والی ایک پریس بریفنگ میں پومپیو نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شنجیانگ میں صورت حال کو “انسانی حقوق کی تاریخی زیادتیاں” قرار دیا۔

انہوں نے کہا، “ہم چینیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ طرز عمل قابل نفرت ہے اسے بند کیا جانا چاہیے۔”

ٹوئٹر کی عبارت کا ترجمہ: – چین کے جبر اور اجتماعی گرفتاریوں کی مہم کا شکار ہونے والے #ویغوروں، نسلی #قازقوں اور#شنجیانگ میں اقلیتی گروہوں کے دیگر افراد کے اہلیان خانہ اور اِس مہم سے بچ کر نکل آنے والوں سے ملاقات کی۔ میں چین سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ نقصان دہ پالیسیوں کو ختم کرے اور من مانے طریقے سے گرفتار کیے گئے تمام افراد کو رہا کرے۔