اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ اصول درج ہے کہ دنیا کے ممالک کسی دوسری ریاست کی “علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی” کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ یوکرین پر اپنے ظالمانہ، بلا اشتعال اور پہلے سے سوچے سمجھے حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے روسی صدر ولاڈیمیر پوٹن یہ جھوٹ پیش کر رہے ہیں کہ یوکرین ایک ملک نہیں ہے۔
21 فروری کی ایک تقریر میں پوٹن نے یوکرین کے روس کے زیرِکنٹرول علاقوں، ڈونیٹسک اور لوہانسک کو “آزاد” علاقوں کے طور پر تسلیم کرنے کی کوشش کی جو کہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ “جدید یوکرین کو کلی طور پر روس نے بنایا تھا۔” انہوں نے اِس خودمختار ملک کو “تاریخی طور پر روسی سرزمین” کہا۔
ییل یونیورسٹی کے پروفیسر اور یوکرین اور مشرقی یورپ کی تاریخ پر کتابوں کے مصنف، ٹموتھی سنائیڈر نے 21 فروری کو ایم ایس این بی سی ٹیلی ویژن پر کہا، “اس [پوٹن] نے تاریخی لحاظ سے سراسر غلط بات کی ہے۔”
سنائیڈر نے مزید کہا کہ آزاد یوکرین کی تحریک سوویت یونین سے 100 سال پہلے کی ہے۔ یوکرینی تاریخ کے یہ پہلو قرون وسطیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔
دسویں اور گیارھویں صدیوں میں، یوکرین پہلی مشرقی سلاوِک اور یورپ کی سب سے بڑی ریاست “کیئویئن رس” کا مرکز تھا۔ یوکرین کی ریاست “کوساک ہیتمانیہ” سترھویں صدی کے وسط میں وجود میں آئی اور ماسکو کے دباؤ کے باوجود 100 سال سے زیادہ عرصے تک اپنی آزاد حیثیت میں قائم رہی۔
یوکرین کی ریاستی حیثیت

اپنی 21 فروری کی تقریر میں پوٹن نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے 1991 میں یوکرین کو قائم کیا۔ یہ وہی سال تھا جب سوویت یونین ٹوٹا تھا۔ یوکرین نے اگست 1991 میں آزادی کا اعلان کیا۔ اسی سال دسمبر میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں یوکرین کے شہریوں نے اس اعلان کی حمایت کی جس میں 92% ووٹروں نے آزادی کا انتخاب کیا۔
اس ترمیمی تاریخ اور من گھڑت بہانوں کے پس منظر میں، پوٹن نے 24 فروری کو یوکرین پر پہلے سے سوچے سمجھے، بلا اشتعال اور بلاجواز وسیع پیمانے پر حملے کیے جن سے یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہوئی۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے اس اقدام کو “دانستہ، سنگدل اور لمبے عرصے کی منصوبہ بندی کے حامل حملے قرار دیا۔” انہوں نے مزید کہا، “روس تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔”
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق روسی حکام، “روس کے بارے میں تاثر کے لیے زیادہ سازگار حالات تیار کرنے کی کوشش میں باقاعدگی سے تاریخی بیانیوں کو مسخ کر رہے ہیں۔” اِس ضمن میں محکمہ خارجہ نے “یوکرین کی ریاستی حیثیت کی تاریخ” میں ترمیم کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیا۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 22 فروری کو کہا کہ صدر پوٹن یوکرین کو “علاقائی سالمیت اور آزادی کے حق کے حامل ایک خودمختار ملک کے طور پر نہیں، بلکہ اسے ایک روسی تخلیق کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسی لیے وہ اسے روس کے ماتحت گردانتے ہیں۔ قطعی طور پر یہ ایک ایسا جھوٹا دعویٰ ہے جو تاریخ اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ ساتھ اُن لاکھوں محب وطن یوکرینیوں کو بھی نظر انداز کرتا ہے جو آزاد اور خود مختار یوکرین کے قابل فخر شہری ہیں۔”