پوڈ کاسٹنگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت

پوڈ کاسٹ کی مقبولیت چہارسُو پھیل چکی ہے۔

اگرچہ دستیاب پوڈ کاسٹوں کی کوئی متفقہ تعداد تو معلوم نہیں تاہم سب سے بڑی ڈسٹری بیوٹر کمپنی، ایپل کا کہنا ہے کہ اس کے آٹھ زبانوں میں فراہم کیے جانے والے 250,000  پوڈ کاسٹوں کو ایک ارب سے زائد لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔

جیسے کہ بلاگوں نے ہر ایک کو قارئین کی اتنی بڑی تعداد تک رسائی کا موقع فراہم کر دیا ہے جو کسی زمانے میں صرف کثیرالاشاعت اخبارات کو حاصل ہوا کرتی تھی اسی طرح پوڈ کاسٹ بھی روائتی میڈیا پر بازی لے گئے ہیں اور پوڈ کاسٹ نشر کرنے والوں کو بھی سامعین کی اتنی بڑی تعداد سے بات کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا ہے کہ جتنی بڑی تعداد کو وہ اپنی طرف راغب کر سکتے ہوں۔

پوڈ کاسٹ پہلے پہل 2003 میں شروع ہوئے۔ یہ آڈیو فائلیں ہوتی تھیں جو آر ایس ایس فیڈ کے اندر بند ہوتی تھیں۔ پہلا پوڈ کاسٹ نشر کرنے والے صحافی، کرسٹوفر لائیڈن بہت پہلے جان گئے تھے کہ پوڈ کاسٹ کا مستقبل روشن ہے۔ انہوں نے دا گارڈین اخبار کو بتایا کہ پوڈ کاسٹ کے اولین خالقوں کا مقصد “ہر مرد، عورت، اور بچے کو براڈکاسٹر [ناشر] بنانا تھا۔”

سامعین کون ہیں؟

ایک حالیہ جائزے کے مطابق 40 فیصد امریکیوں نے حالیہ دنوں میں کسی نہ کسی وقت پوڈ کاسٹ سنے ہوتے ہیں اور 24 فیصد نے ماضی قریب میں سنے ہوتے ہیں۔ 2008 میں کبھی بھی پوڈ کاسٹ سننے والوں کی تعداد صرف 18 فیصد اور ماضی قریب میں سننے والوں کی تعداد نو فیصد تھی۔ 2008 کے مقابلے میں ہونے والا یہ اضافہ اچھا خاصا ہے۔

پو ڈکاسٹوں میں خبروں کے ایک گھنٹے کے تجزیے جیسے دا بین شپیرو نامی شو سے لے کر فرسودہ خیالات کے حامل لوگوں کا سامنا کرنے والی نائجیریا کی چار نوجوان خواتین کے  ناٹ یور افریقن کلیشے اور سنگاپور کے ٹکنالوجی کے ایگزیکٹو برنارڈ لیونگ کے انالائز ایشیا جیسے مختلف النوع پوڈکاسٹ شامل ہوتے ہیں۔ اِن تمام میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے: گفتگو۔

نِکی سلوا کہتی ہیں، “اس کا تعلق ایک ایسی آواز سے ہے جو گہرا اور فوری اثر رکھتی ہے۔ میرے خیال میں یہ اپنے اندر ایک حیرت انگیز طاقت لیے ہوئے ہے۔”1980 کی دہائی سے لے کر آج تک سلوا اور ڈیویا نیلسن نے “دا کچن سسٹرز” کے نام سے ریڈیو شو پروڈیوس [تخلیق] کیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) اور برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے ساتھ ساتھ “دا کچن سسٹرز پریزنٹ” کے نام سے اپنے مقبول عام پوڈ کاسٹ تیار کیے ہیں۔ سلوا کہتی ہیں، “[پوڈ کاسٹ عموماً] لوگ کانوں میں ہیڈ فون لگا کر کسی حد تک تنہائی میں سنتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں لوگ ریڈیو اکثر کسی کھلے کمرے یا اپنی کار میں سنتے ہیں۔ اس لیے پوڈ کاسٹنگ میں ایک قسم کی مانوسیت پائی جاتی ہے۔”

Illustration of people with headsets and microphones, beaming messages (State Dept./Doug Thompson)
(State Dept./Doug Thompson)

سامعین کتنی دیر تک سنتے رہتے ہیں؟

ایڈیسن ریسرچ کے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پوڈ کاسٹ کے سامعین اوسطاً چھ شو سنتے ہیں۔ یہ مطالعہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ 85 فیصد سامعین پوڈ کاسٹ کا زیادہ تر حصہ یا پورا سنتے ہیں۔ یہ بات پوڈ کاسٹروں کی اپنی سامعین کی توجہ حاصل کرنے کی اہلیت کا پتہ دیتی ہے۔

ذاتی پوڈ کاسٹ شروع کرنے کے لیے ایک ریکارڈر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِن  ریکارڈروں میں سمارٹ فون یا کمپیوٹر سے لے کر قیمتی ریکارڈنگ سٹوڈیو تک شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پوڈ کاسٹ نشر کرنے کے لیے کسی جگہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سی کمپنیاں پوڈ کاسٹ نشر کرنے کے لیے مفت پلان پیش کرتی ہیں۔ اور ہاں اِن چیزوں کے علاوہ آپ کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بات بھی کریں۔

نکی سِلوا کہتی ہیں، “اس میں کوئی نگران نہیں ہوتا۔ یہ بھی نہیں ہے کہ آپ  کو [پوڈ کاسٹ] نشر کرنے کے لیے سامعین کی ایک خاص تعداد کی ضرورت ہو۔”

جن لوگوں کو پیشہ ورانہ ریکارڈنگ کے آلات تک رسائی حاصل نہیں اُن کو سلوا کا یہ مشورہ ہے کہ وہ لائبریریوں یا یونیورسٹیوں میں دستیاب آلات استعمال کرنے کے بارے میں سوچیں۔ پوڈ کاسٹ ریکارڈ کرنے کے لیے موبائل فون بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔