ولين اوجاناما سنگاما اپنے شاگردوں کے ہاتھوں بننے والے مٹی کے برتن دکھاتے ہوۓ پرجوش اور توانا دکھائ دے رہے تھے۔ “اب ان بچوں کے ليے (حالات) مختلف ہيں جو دس برس کے ہيں”۔ انھوں نے ہميں بتايا کہ “اب وہ تعليم پر توجہ مرکوز کرتے ہيں”۔
جب سنگاما دس برس کے تھے تو انھوں نے کوکين کی کاشت شروع کر دی۔ پيرو کے جنگلات ميں واقع گاؤں چازوٹا کے اکثر مکين يہی کرتے تھے۔ اسی اور نوۓ کی دہائ ميں منشيات کی اسمگلنگ نے گاؤں کو اپنی لپيٹ ميں لے ليا، اور اس کے نتيجے ميں گاؤں اپنی بہت سی روايات سے محروم ہونے لگا جس ميں مٹی کے برتن بنانے کا فن بھی شامل تھا۔
سال 2004 ميں پیرو کی حکومت نے ايک منصوبہ تشکيل ديا تا کہ کوکين کی غير قانونی کاشت کو کم کيا جا سکے۔ اس اقدام سے کوکين کے سابقہ کسانوں کو قانونی ذريعہ معاش ملنے ميں مدد ملی۔ ان کسانوں نے کافی اور کوکو بيج کو اگانا شروع کر ديا اور مٹی کے برتنوں کے کاروبار شروع کر ديے۔
پيرو کی حکومت، يو ايس اے آئ ڈی اور امريکی وزارت خارجہ کے انسداد منشيات کے ادارے نے مل کر پاسکو، يوکايلی اور سين مارٹن ميں کوکين کی کاشت ميں 83٪ کمی کر دی ہے۔

سنگاما نے فن کوزہ گری کے ساتھ اپنے شوق کو مزيد بڑھايا۔ “ميں 13 سال کی عمر سے مٹی کے برتن بنانے کی مشق کر رہا تھا اور ميری والدہ سے مجھے بتايا کہ ميں جب چھوٹا بچہ تھا تو چکنی مٹی سے کھيلتا تھا۔”
جب انھوں نے مٹی کے برتن بنانے کا کاروبار شروع کيا تو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سال 2013 ميں انھوں نے يوايس اے آئ ڈی کی ڈيجيٹل اور مالياتی علوم سے متعلق کلاس ميں شرکت کی۔ يو ايس اے آئ ڈی کی مالی اعانت سے جاری ٹيلی سنٹر ميں چازوٹا ميں کاريگروں، کسانوں اور کاروباری افراد کے ليے کورسز پيش کيے گۓ جن سے مواقعوں ميں وسعت کے ساتھ ساتھ گاؤں کی معيشت کو مضبوط کرنے ميں مدد ملی۔
“تربيت نے مجھے سکھايا کہ انٹرنيٹ کو کيسے استعمال کيا جاۓ اور کاروبار کو وسعت دی جاۓ” انھوں نے کہا کہ “تربيت سے پہلے ہماری پيداوار زيادہ نہيں تھی کيونکہ ايسی کوئ مارکيٹ نہيں تھی جہاں ہم اپنی مصنوعات کو بيچ سکیں۔” اب وہ چار گنا زيادہ اشياء پيدا کرتا ہے۔
سال 2002 سے يو ايس اے آئ ڈی نے اسی ہزار خاندانوں کو معاش کے ذرائع فراہم کيے ہيں، کوکين کے سابقہ کسانوں کو قانونی ذريعہ معاش کے حصول ميں مدد فراہم کی ہے اور انھيں پيداوار سے متعلق انجمنوں سے ملايا ہے۔

شايد ايک چيز جو سنگاما کے ليے سب سے زيادہ باعث فخر ہے وہ اس کا آرٹ کا استاد ہونا ہے۔ “ہميں اپنے بچوں کی ديکھ بھال کرنا ہوگی” انھوں نے کہا “ہميں ترقی کے مواقع ان تک پہنچانے ہوں گے”۔
اس کالم کا تفصيلی حصہ يو ايس اے آئ ڈی پر پڑھا جا سکتا ہے۔