لوگوں کے ہجوم سے بلندی پر کھڑا ایک آدمی فتح کا نشان بنا رہا ہے۔ (© Hadi Mizban/AP Images)
تصویر میں دکھائی دینے والے اکتوبر میں تحریر سکوائر میں ہونے والے اس مظاہرے سمیت عراقی عوام اپنے ملک میں ایرانی اثرورسوخ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ (© Hadi Mizban/AP Images)

بغداد میں امریکہ کے سفارت خانے پر حملہ ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں نے کیا تھا اور اس کے پیچھے ایرانی حکومت کا ہاتھ تھا۔ یہ گروہ اور ہیں جبکہ ایرانی حکومت کی طرف سے عراق کو برآمد کی جانے والی بدعنوانی کی مذمت کرنے والے پرامن مظاہرین اور ہیں۔ در حقیقت، یہ سفارت خانے پر دہاوا بولنے والے دہشت گروہ ہی ہیں جو عام عراقیوں کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا کہ امریکہ کے سفارت خانے پر 31 دسمبر کے حملے کو “اُن عراقی مظاہرین کی قانونی کوششوں کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے جو عراقی عوام کے حق میں اُس بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے اکتوبر سے سڑکوں پر نکلتے چلے آ رہے ہیں جو ایرانی حکومت نے وہاں برآمد کی ہے۔”

عراقی عوام کئی ماہ سے ایران کی دخل اندازی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اکتوبر کے شروع سے عراق میں ایران کے عدم استحکام پھیلانے والے اثرو رسوخ اور حکومتی بدعنوانی کے خلاف ہزاروں عراقی مظاہرین متعدد بار سڑکوں پر نکل چکے ہیں۔

وزیر خارجہ نے انہیں “حقیقی مظاہرین” قرار دیا، “نہ کہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے اُن لوگوں کو جنہیں قاسم سلیمانی کی طرف سے سفارت خانے جانے کی ہدایات دی گئیں تھیں۔”

ٹوئٹر کا خلاصہ:

وزیر خارجہ پومپیو: آج کے حملے کے پیچھے دہشت گردوں یعنی ابو مہدی المہندس اور قیس الخزالی کا ہاتھ تھا اور اس میں ایرانی آلہ کاروں یعنی ہادی الاماری اور فالح الفیاض نے مدد کی۔ ہمارے سفارت خانے کے باہر لی گئی ایک تصویر میں یہ سب دکھائی دے رہے ہیں۔

پومپیو نے کہا، “یہ ایران کی حمایت یافتہ بدمعاش ملیشیا تھی جو عراقی عوام کی بنیادی خودمختاری کے انکار کے لیے کام کر رہی تھی۔” انہوں نے کہا کہ یہ گروہ مشرق وسطٰی میں دہشت گردی پھیلانے میں ایرانی حکومت کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

اس حملے سے پہلے ایرانی حمایت یافتہ گروہ کی طرف سے داعش کو شکست دینے والے عالمی اتحاد کی مدد کرنے والے ایک عراقی اڈے پر متواتر حملے کیے گئے۔ اس گروہ نے 27 دسمبر کو اس اڈے پر 30 سے زیادہ راکٹ داغے جس میں ایک ٹھیکے دار جو امریکی شہری تھا، ہلاک اور امریکی فوجی اور عراقی اہلکار زخمی ہوئے۔

امریکہ نے اس کے ردعمل میں عراق اور شام میں کتائب حزب اللہ سمیت ایران کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں پر دفاعی فضائی حملے کیے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی شہریوں، اپنی افواج یا اپنے اتحادیوں پر کیے جانے والے حملوں کو برداشت نہیں کرے گی۔

پومپیو نے کہا، “ہمیں جہاں کہیں بھی ان کی بدنیتی پر مبنی سرگرمیاں نظر آئیں گیں، ہم اسلامی جمہوریہ ایران کو جوابدہ ٹھہرانا جاری رکھیں گے۔”