
تین دہائیاں قبل زمینی مدار کا چکر لگا کر پہلی امریکی خاتون کا اعزاز حاصل کرنے والی آنجہانی سیلی رائیڈ کی شخصیت ان کے انقلابی کارناموں کے بعد پیدا ہونے والوں سمیت، آج بھی بےشمار لوگوں کے لیے تحریک کا باعث بنی ہوئی ہے۔
کرسٹین کیو کو ہی دیکھ لیجیے۔ 21 سالہ کیو کا کہنا ہے کہ وہ رائیڈ سے متاثر ہو کر ہی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سان ڈیگو میں بائیو انجینئرنگ پڑھ رہی ہیں۔ 1987 میں ناسا سے فارغ ہونے کے بعد رائیڈ یہاں فزکس پڑھایا کرتی تھیں۔ کیو یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سان ڈیگو میں یونیورسٹی اور ‘سیلی رائیڈ سائنس’ کے مابین رابطے کا کام کرتی ہیں۔ تعلیم کے لیے کام کرنے والا یہ ایک غیرمنفعتی ادارہ ہے جس کا قیام 2001 میں عمل میں آیا۔ رائیڈ اس ادارے کی معاون بانی تھیں۔ اس کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں پیشے اختیار کرنے کے لیے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
کیو کہتی ہیں، “مجھے سیلی رائیڈ کی میراث کا حصہ ہونے پر بے حد فخر ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا خواب میں ہمیشہ بچپن دیکھا کرتی تھی۔”

امریکی محکمہ ڈاک 23 مئی کو یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تقریب میں رائیڈ اور ان کے کارناموں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈاک کا ایک ٹکٹ ان سے منسوب کر رہا ہے۔ یہ قدم خلا سے متعلق اس نمایاں شخصیت کی لبلبے کے کینسر سے وفات سے قریباً چھ سال بعد اٹھایا جا رہا ہے۔ (حسن اتفاق ہے کہ رائیڈ خود بھی ٹکٹیں جمع کرنے کی شوقین تھیں۔)
رائیڈ کی سہیلی اور ٹینس کی عظیم کھلاڑی بلی جین کنگ اور خلا بازی میں رائیڈ کے نقش قدم پر چلنے والی خلا باز ایلین اوچوا بھی اس تقریب میں شریک ہوں گی ۔ بعدازاں اسی دن شام کو کنگ، اوشوا اور امریکہ کی 66ویں وزیرخارجہ کونڈو لیزا رائس خواتین کی قیادت کے حوالے سے ایک مباحثے میں حصہ لیں گی۔
رائیڈ 1978 میں خلاباز بنیں۔ وہ امیدواروں کی اُس پہلی کلاس کا حصہ تھیں جن میں خواتین کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ 1983 میں وہ مشن سپیشلسٹ کی حیثیت سے چیلنجر نامی خلائی شٹل کے عملے میں شامل ہوئیں۔ ایک سال بعد انہوں نے چیلنجر پر اپنا آخری مشن مکمل کیا۔
رائیڈ نے دنیا پر ثابت کیا کہ خواتین اپنے مرد ساتھیوں کے یکساں صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ ناسا کا کہنا ہے کہ جولائی 2017 تک رائیڈ کی پیروی کرتے ہوئے 56 خواتین خلا میں جا چکی ہیں۔
2013 میں رائیڈ کو ان کی وفات کے بعد امریکہ کے سب سے بڑے شہری اعزاز یعنی ‘پریزیڈینشل میڈل آف فریڈم’ [صدارتی تمغہِ آزادی] سے نوازا گیا۔ ‘سیلی رائیڈ سائنس’ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور رائیڈ کے شریک حیات، ٹم او شنیسی نے ان کی جانب سے اعزاز وصول کیا۔
اوشونیسی کا کہنا ہے کہ رائیڈ کے نام سے قائم کی گئی کمپنی ان کی میراث کو فروغ دینا جاری رکھے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر لڑکیوں کو سمندری روبوٹوں اور عمل تشریح سے متعارف کرانے والی جونیئر اکیڈمی کے پاس 2017 میں 500 لڑکیاں تھیں جن کی تعداد اب بڑھا کر 1000 کی جا رہی ہے۔
اوشونیسی کہتے ہیں، “کمپنی کا قیام اور سائنسی ماحول میں، حتٰی کہ ایک چھوٹی سی ہی تبدیلی لانے کی کوشش، ان کا بہت بڑا عزم تھا اور ہمیں اس حوالے سے اپنے کام پر حقیقی معنوں میں فخر ہے۔”
یہ مضمون فری لانس لکھاری لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا۔ .