
100 سال پہلے 11ویں مہینے کے 11ویں دن صبح 11:00 بجے فرانس کے علاقے کومپیانیے میں ریلوے کی ایک ڈبے میں جرمنی نے ہتھیار ڈالے اور پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہو گیا۔
11 نومبر 1918 کو ہونے والی جنگ بندی چار سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی لڑائی کی یاد دلاتی ہے جس میں چار کروڑ سے زیادہ لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اسی بنا پر اس کا شمار انسانی تاریخ کی خونی ترین جنگوں میں ہوتا ہے۔ جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو لوگوں نے سڑکوں گلیوں میں نکل کر خوشی کا اظہار کیا۔
اس برس امریکہ اور دنیا بھر میں بہت سے لوگ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کی 100ویں سالگلرہ منا رہے ہیں۔
کنسس سٹی، مزوری میں پہلی جنگ عظیم کے قومی عجائب گھر اور یادگار کے زیراہتمام سپاہیوں کے خطوط پڑھنے اور آرٹسٹ ایڈا کوچ کے جنگ میں مارے جانے والے امریکی مردوخواتین فوجیوں کی یاد میں پوست سے بنائے ہوئے مجسموں کی نمائش پر مشتمل تقریب منعقد کی جا رہی ہے۔

عجائب گھر کے صدر ڈاکٹر میتھیو نیلر کہتے ہیں، ”پہلی جنگ عظیم کے بعد پوست یاد، امید اور استقامت کی علامت بن گئی تھی۔ جنگ بندی کو سو سال مکمل ہونے پر ایڈا کے مجسموں کی نمائش ان مردوخواتین کو ان کی شان کے مطابق خراج عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے ملک پر اپنی جانیں قربان کر دیں۔”
ورجینیا میں آرلنگٹن کا قومی قبرستان بہت سے امریکی فوجی ہیروز کی آخری آرام گاہ ہے جہاں مسلح افواج کی جانب سے نامعلوم سپاہی کے مقبرے پر پھول چڑھانے کی ایک مفصل صدارتی تقریب ہو گی۔
صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو متوقع طور پر پیرس میں دنیا بھر سے آنے والے درجنوں رہنماؤں کے ہمراہ اس جنگ میں مارے جانے والے ان کروڑوں لوگوں کی یاد میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کریں گے جن میں 116,516 امریکی بھی شامل تھے۔ اس دورے میں ٹرمپ اور پومپیو کا فرانس میں امریکی قبرستانوں میں جانے اور فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں سے ملاقات کا پروگرام بھی شامل ہے۔

اس صد سالہ موقعے ہر ‘پیرس امن فورم‘ بھی شروع کیا جائے گا۔ یہ فورم دنیا بھر کے رہنماؤں، سول سوسائٹی اور عالمی تنظیموں کے لیے اکٹھے ہونے نیز اچھی حکمرانی اور امن و سلامتی پر خیالات کے تبادلے کا ایک موقع بھی ہے۔
آسٹریا کے آرک ڈیوک فرانز فرڈیننڈ کے قتل سے پیدا ہونے والے واقعات کے ایک سلسلے کا نتیجہ 1914 میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم کی صورت میں سامنے آیا۔ اتحادیوں (برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی) نے محوری طاقتوں (جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ) کے خلاف جنگ لڑی۔

اگرچہ امریکہ جنگ کے ابتدائی دو برسوں میں سرکاری طور پر غیرجانبدار رہا مگر اس نے اتحادیوں کو امداد، رقم اور سازوسامان کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ 1917 میں باقاعدہ طور پر اتحادیوں کے ہمراہ جنگ میں شامل ہوا۔
اس دوران اندازاً 14 لاکھ امریکیوں نے یورپ کے مغربی محاذ پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک جنگ لڑی۔ اگلے محاذ پر تازہ دم امریکی دستوں کا اضافہ فیصلہ کن عنصر سمجھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اتحادیوں کو فتح حاصل ہوئی۔
صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ریٹائرڈ امریکی فوجیوں اور ان کے اہلخانہ کے اعزاز میں جاری کیے جانے والے ایک صدارتی اعلان میں کہا، ”نسل در نسل مردوخواتین ہمارے ملک اور آزادی کے دفاع کی آواز پر اٹھ کھڑے ہوئے اور غیرمعمولی ہمت سے خطرات اور غیریقینی کا سامنا کیا۔”
امریکہ اور پہلی جنگ عظیم کے بارے میں مزید جاننے کے لیے دیکھیے کہ کیسے امریکی شمولیت نے جنگ کا رخ تبدیل کیا، کروڑوں لوگوں کو بھوکا مرنے سے بچایا، خواتین کو افرادی قوت کا حصہ بنایا اور امریکی فن کو تبدیل کر دیا۔