ایک عورت کے ہمراہ فوجیوں کا ایک بڑا گروپ۔ (© University of Minnesota Libraries, Kautz Family YMCA Archives)
وائی ایم سی اے کی کارکن کیتھرین ایم جانسن پہلی عالمی جنگ کے دوران فرانس میں افریقی نژاد امریکی فوجیوں کے ہمراہ کھڑی ہیں۔ (© University of Minnesota Libraries, Kautz Family YMCA Archives)

سمندر پار خدمات سر انجام دینے والی افریقی نژاد امریکی عورتوں کے ایک گروپ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور اس کے بعد امریکی فوج میں اپنے ساتھی فوجیوں کی مدد میں اہم کردار ادا کیا۔

فوجیوں کا ایک گروپ ایک عورت سے مل رہا ہے۔ (© University of Minnesota Libraries, Kautz Family YMCA Archives)
ایڈی ڈبلیو ہنٹن جنگ کے دوران فرانس میں افریقی نژاد امریکی فوجیوں سے مل رہی ہیں۔ (© University of Minnesota Libraries, Kautz Family YMCA Archives)

 

آزمائش کے وقت وفاداری: پہلی عالمی جنگ کے دوران افریقی نژاد امریکی تجربہ” کے عنوان سے لکھی گئی کتاب کے مطابق ینگ مینز کرسچیئن ایسوسی ایشن کی 23 سیاہ فام عورتوں نے فرانس میں تعینات دو لاکھ افریقی نژاد امریکی فوجیوں کا ہاتھ بٹایا۔

ایڈی ڈبلیو ہنٹن، کیتھرین ایم جانسن اور ہیلن کرٹس ہی صرف ایسی تین خواتین ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو علم ہے کہ وہ اس گروپ کا حصہ رہی ہیں جس نے فرانس میں جنگ کے دوران اِن فوجیوں کی اس وقت مدد کی جب جنگ زوروں پر تھی۔

اس وقت امریکہ میں ‘جِم کرو قوانین’ کے تحت روزمرہ کی زندگی میں سیاہ فاموں کو سفید فام لوگوں سے مکمل طور پر الگ تھلگ کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں سیاہ فام، شہریوں کی حیثیت سے اپنے تمام حقوق سے محروم ہو گئے۔ حتٰی کہ بیرون ملک بھی امریکی فوج اِن قوانین کی پابندی کرنے پر مجبور ہوگئی۔ بہت بعد میں یعنی 1948 میں صدر ہیری ایس ٹرومین نے رنگ سے قطع نظر، امریکی فوج کو یکجا کرنے کے حکم نامے پر دستخط کیے۔ مگر پھر بھی 1954 تک فوج مکمل طور پر مربوط نہ ہو سکی۔

واشنگٹن میں امریکی تاریخ اور ثقافت کے میوزیم کے معاون مہتمم، کریوآسکی سالٹر بتاتے ہیں کہ فرانس میں عورتیں افریاقی نژاد امریکیوں کے چھٹیوں کے دفتروں (جہاں سپاہیوں کی چھٹیوں کی درخواستوں پر کاروائی کی جاتی تھی) اور اُن کینٹینوں پر کام کیا کرتی تھیں جہاں سپاہی کھانا کھاتے تھے اور شراب نوشی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے “ لڑائی کا ہمارا جواب : پہلی عالمی جنگ میں افریقی امریکی تجربہ” کے عنوان سے ایک نمائش کا اہتمام کیا۔

یہ عورتیں “میزبان گھر” بھی چلاتی تھیں جہاں فوجی سپاہی سماجی میل جول کے لیے آتے تھے۔ سالٹر کہتے ہیں کہ یہ عورتیں گھر پر پکے ہوئے کھانے پیش کرکے، اُن کی گفتگو سن کر، صحت مندانہ تفریح کا اہتمام کر کے فوجیوں کا خیرمقدم کیا کرتی تھیں اور اِن گھروں کی دیکھ بھال بھی کیا کرتی تھیں۔

سالٹر کہتے ہیں، “افریقی نژاد امریکی عورتیں جنگ میں مدد کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھیں کیونکہ اُن میں سے بہت سوں کے بھائی، ماموں، چچے، والد اور ماموں زاد اور چچا زاد بھائی یا تو لازمی بھرتی کے تحت اور/ یا خود فوج میں شامل ہوئے تھے۔ افریقی نژاد امریکی فوجیوں کی مدد کرنے کے لیے افریقی نژاد امریکی عورتوں میں زبردست حمایت پائی جاتی تھی۔

لائبریری آف کانگریس کے مسودوں کے شعبے میں جدید امریکہ کے ایک تاریخ دان، ریان ریفٹ کہتے ہیں کہ 1918 کے اواخر میں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد بھی سپاہی کئی مہینوں اور سالوں تک فرانس میں موجود رہے۔

وائی ایم سی اے کی افریقی نژاد امریکی عورتوں نے ایسی ہی نوعیت کی خدمات فراہم کی ہوں گی جس نوعیت کے کام بنیادی طور پرغیرلڑاکا فوجیوں کو جنگ کے دوران کرنے کے لیے دیئے گئے تھے۔ غیرلڑاکا فوجیوں میں زیادہ تر افریقی نژاد امریکی فوجی شامل تھے۔

ایڈی ڈبلیو ہنٹن اور کیتھرین ایم جانسن جنگ کے بعد امریکہ واپس آ گئیں اور انہوں نے مشترکہ طور پر “ رنگتوں والی دو عورتیں امریکی مہم جو افواج کے ہمراہ” نامی کتاب لکھی۔ انہوں نے فرانس میں اپنے تجربات کو “خدمت کرنے کا زندگی کا ایک عظیم ترین موقع” قرار دیا۔

باہر میز کے گرد بیٹھے اور کھڑے ہوئے لوگوں کی دھندلائی ہوئی ایک تصویر۔ (© University of Minnesota Libraries, Kautz Family YMCA Archives)
وائی ایم سی اے کی افریقی نژاد کارکن عورتیں پس منظر میں بیٹھے سیاہ فام فوجیوں کے ہمراہ چائے پی رہی ہیں۔ (© University of Minnesota Libraries, Kautz Family YMCA Archives)

 

1920 میں اِن عورتوں نے لکھا، “ایک لاکھ مردوں کے ساتھ رابطہ بیک وقت ایک مدد تھی اور ایک متاثر کردینے والا تجربہ تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سو مختلف طریقوں سے مدد کرنا ہمارے لیے اعزاز کی بات تھی۔ اِن میں وہ مرد بھی تھے جو تعلق کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے مگر اُن کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ بعض وہ تھے جو مدد کے لئے اونچی آواز سے پکار رہے تھے کہ وہ کسی ایسے طریقے کی محض شدھ بدھ ہی حاصل کر لیں جس سے وہ اُن بے چین دلوں سے رابطہ قائم کرسکیں جنہیں وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ مگر ایسے بھی تھے جنہیں گہرا فہم اور وسیع بصیرت حاصل تھی۔ “