ایران بدستور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا سرکردہ  ملک بنا ہوا ہے۔ ایران سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی اور اس  سپاہ  کی قدس فورس (آئی آر جی سی– کیوایف) کہلانے والے خصوصی فوجی  یونٹ کے ذریعے حملے کر رہا ہے  اور عدم استحکام  پیدا کرنے والی دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ امریکی پابندیوں کا ایک اہم  ہدف اس یونٹ کو پیسوں کی مسلسل فراہمی کو منقطع کرنا ہے۔

مئی میں امریکہ اور متحدہ عرب امارت نے کرنسی تبدیل کرنے والے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے اُس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے اکٹھے مل کر اقدامات اٹھائے جو غیرقانونی طور پر ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی سپاہ کو کروڑوں ڈالر منتقل کرتا رہا ہے۔ امریکہ کے محکمہِ خزانہ نے بتایا کہ آئی آر جی سی نے پھر اس پیسے کو “اپنی ناپاک سرگرمیوں اور خطے کے نیابتی گروپوں” کو پیسے پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔

یہ کام اس طریقے سے کیا گیا۔ جهان ارس کیش آئی آر جی سی کی ایک برائے نام اور ظاہری کمپنی ہے جو ایران کے مرکزی بنک کے غیر ملکی کھاتوں سے تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی نکلواتی ہے۔ امریکہ نے اس کمپنی کو اپنے ہدف میں شامل کیا۔ اس کمپنی کے دو اہل کار آئی آر جی سی کے ایک اہل کار اور غیر ملکی کرنسی تبدیل کرنے والے دو اہل کاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ اس کے بعد موخرالذکر یہ تینوں افراد پیسوں کو متحدہ عرب امارات منتقل کرنے اور امریکی ڈالروں میں تبدیل کرنے کے لیے ایک اور ایرانی فرد کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ راشد ایکسچینج کا مینیجنگ  ڈائریکٹر اِس غیرقانونی لین دین کو چھپانے کے لیے  آئی آر جی سی کے ساتھ مل کر دستاویزات میں ردوبدل کیا کرتا تھا۔

Graphic explaining flow of money in and out of Iran (State Dept./S. Gemeny Wilkinson)

اِن پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے کہا، “وزارت خزانہ اس معاملہ میں قریبی تعاون کرنے پر متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کرتی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کو ایران کی کرنسی کی تبدیلی اور آر جی سی – کیو ایف اور دہشت گردی کے دنیا کے سب سے بڑے سرپرست ملک کی مالیاتی اداروں کا استحصال کرنے کی کوششوں کے خلاف ہمہ وقت ہوشیار رہنا چاہیے۔”

یہ مضمون اُن دو مضامین کی کڑی کا دوسرا حصہ ہے جن کا تعلق اس سے ہے کہ امریکہ ایران کی دہشت گردی کی مالی سرپرستی سے کیسے نمٹ رہا ہے۔ اس کے پہلے مضمون کا عنوان یہ تھا: “امریکہ نے ایران کے مرکزی بنک کو حزب اللہ کو پیسے بھیجتے ہوئے کیسے پکڑا