ہوا میں بازو اٹھائے کھڑی ایک عورت اور انگریزی کے بڑے حروف میں لکھا لفظ
پیس کور کی رضاکار پیٹریشیا ایٹیئن "بارانو" سائن کے قریب کھڑی ہیں۔ بارانو کولمبیا کے اٹلانٹیکو صوبے کا ایک شہر ہے۔ (Courtesy of Patricia Etienne)

جب دو سال پہلے کووڈ-19 وبا پھوٹی تو پیس کور نے اپنے رضاکاروں کی صحت کی حفاظت کی خاطر اُن کی پوسٹوں سے واپس امریکہ بلا لیا۔ آج وہی رضاکار بلکہ بض نئے رضاکار بھی، ایک نئے ولولے کے ساتھ اپنا خدمت کا مشن پورا کرنے کے لیے واپس جا رہے ہیں۔

یہ رضاکار بیلیز، ڈومینیکن ریپبلک، مشرقی کیریبین، ایکواڈور، کولمبیا، میکسیکو، پیراگوئے اور پیرو واپس جا چکے ہیں۔  یہ تو ابھی آغاز ہے: پیس کور کو بہت سی دوسری جگہوں سے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں اور آنے والے مہینوں میں مزید رضاکار بھیجنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔

ہم نے دو رضاکاروں سے امریکہ کے براعظموں کے پراجیکٹوں کے بارے میں بات کی۔ اِن میں سے ایک پیس کور کے پرانے رکن جبکہ دوسرے نئے ہیں۔

انگریزی زبان سکھانا

 پیٹریشیا ایٹیئن مسکرا رہی ہیں (Courtesy of Patricia Etienne)
پیس کور کی رضاکار، پیٹریشیا ایٹیئن کولمبیا میں۔ (Courtesy of Patricia Etienne)

فلوریڈا سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ، پیٹریشیا ایٹیئن کہتی ہیں کہ اُن کے انچارج افسران پیس کور کے سابقہ رضاکار ہیں اور اُن کو اُس کام کا بہت زیادہ تجربہ ہے جس کے کرنے کا انہوں نے عزم کر رکھا ہے۔ انہوں نے ایٹیئن کو بتایا کہ دوسروں کی خدمت کرتے ہوئے وہ کوئی نئی زبان سیکھ سکتی ہیں، کام کرنے کا تجربہ حاصل کر سکتی ہیں اور نئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتی ہیں۔ اُن کے جوش اور جذبے کی وجہ سے ایٹیئن نے پیس کور میں کام کرنے کو بہترین کام سمجھتے ہوئے پیس کور میں رضارکارانہ طور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

حال ہی میں کولمبیا کے اٹلانٹیکو کے علاقے میں اپنی تعیناتی کے بعد وہ اپنی سروس کے “مشاہدے اور انضمام کے مرحلے” میں پورے انہماک سے کام کر رہی ہیں۔ عنقریب وہ اپنے کولمبین رفقائے کار کے ہمراہ انگریزی کی ٹیچر کی حیثیت سے کام شروع کر دیں گیں۔ انہیں امید ہے کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وہ انگریزی کے اسباق کو طالبعلموں کے لیے متحرک اور خوشگوار بنائیں گیں۔

وہ کہتی ہیں کہ “انگریزی کسی لیکچر ہال میں بیٹھ کر نہیں سکھانا چاہیے۔ یہ [عمل] تفریحی، عملی اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہونا چاہیے۔”

 مقامی ثقافتوں کی اہمیت

27 سالہ بینجمن اوچوا گونزالیز انڈونیشیا میں امن کور کے رضاکار تھے۔ جب دنیا میں کورونا کی وبا پھوٹی تو وہ مجبوری کے تحت امریکہ واپس آ گئے۔ انہوں نے کسی نئے موقعے کی تلاش میں مہینوں انتظار کیا۔ حال ہی میں پیس کور نے انہیں سکول کے بچوں کو اپنی پڑھائی کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے لیے ڈومینیکن ریپبلک کے صوبے مونٹی پلاٹا بھیجا۔

جنوبی کیلی فورنیا میں پلنے بڑھنے والے، گونزالیز کے والدین میکسیکن تارکین وطن ہیں۔ گونزالیز کی کولمبیا میں میزبانی کرنے والے گھرانے کے افراد اپنے دور و نزدیک رہنے والے رشتہ داروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اُن کے مضبوط خاندانی تعلقات انہیں اپنے والدین کے بڑے خاندانوں سے متعلق کہانیوں کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر”میں نے بھی اپنے والدین کے ایک لاطینی ملک میں بڑے ہونے کے تجربات کے بارے میں سمجھنا اور اُن کے ساتھ خود کو جوڑنا شروع کر دیا ہے۔”

جس سکول میں وہ رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں وہاں گونزالیز میٹنگوں میں اپنے رفقائے کاروں کو گرماگرم مباحثوں میں حصہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ “سبھی ایک دوسرے کا حال چال پوچھتے ہیں اور اُن کے اہلخانہ کا حال چال پوچھتے ہیں۔ وہ گزشتہ گفتگووں کو لے کر آگے چلتے ہیں۔” گونزالیز اُن کی گرمجوشی کو سراہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسی قسم کا طرزعمل لے کر کلاس میں جائیں۔

 بچے گھٹنوں کے بل جھکے ایک آدمی کے ہمراہ گروپ فوٹو کھچوا رہے ہیں (Courtesy of Benjamín Ochoa González)
بینجمن اوچوا گونزالیز [دائیں سے تیسرے] ڈومنیکن ریپبلک کے مونٹے پلاٹا صوبے میں طالبعلموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ (Courtesy of Benjamín Ochoa González)
 وہ کہتے ہیں کہ ” اپنی پیس کور کی پہلی سروس کے دوران میں زندگی بھر کے دوست بنا کر اور انڈونیشیا کو اپنا گھر سمجھنے کا حقیقی احساس لیے وطن لوٹا۔ میں اُن تعلقات کا بے تابی سے منتظر ہوں جو میں یہاں ڈومنیکن ریپبلک میں بناؤں گا۔”