اکتوبر 1961 میں پیس کور [سپاہِ امن] کے اولین رضاکار منیلا پہنچے جن کا مقصد فلپائن کے دیہی علاقوں میں واقع پرائمری سکولوں میں اساتذہ کی حیثیت سے معاونت فراہم کرنا تھا۔ فلپائن اِن رضاکاروں کو قبول کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل تھا۔ ان رضاکاروں نے صدر جان ایف کینیڈی کی اپیل پر اپنی خدمات پیش کیں تھیں۔
برینڈا براؤن سکونوور کو اچھی طرح یاد ہے کہ لاس بینوس میں ایک تربیتی مرکز کی جانب 50 کلومیٹر کے سفر میں سڑک کے دونوں جانب بچوں کی قطاریں دکھائی دیتی تھیں۔ یہ بچے بارش میں کھڑے تھے جنہوں نے کتبے اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا ”صدر کینیڈی کی پیس کور کو خوش آمدید۔” اس دوران دیہاتیوں نے انہیں کھانے کی روایتی اشیا ‘میرینڈاس’ پیش کرنے کے لیے ایک درجن سے زائہ مرتبہ روکا۔ بعد ازاں ٹوگو میں امریکی سفیر مقرر ہونے والی سکونوور کہتی ہیں ”یہ مناظر انتہائی جذباتی تھے۔”
ابتدائی 128 رضاکاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 9,300 سے زیادہ امریکی فپائن آئے۔ بعض نے اساتذہ کو تربیت دی اور دیگر نے سمندری گھونگوں کی چٹانوں اور سمندری حیات کے ٹھکانوں کو محفوظ بنانے، کسانوں کو اچھی فصلوں کے حصول میں مدد دینے، غریب علاقوں میں معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے اور مشکلات کا سامنا کرنے والے بچوں و خاندانوں کو مدد فراہم کی۔
اس وقت قریباً 180 رضاکار فلپائنی رضاکاروں کے ساتھ مل کر یہی کام کر رہے ہیں۔
اگرچہ عام طور پر یہ رضاکار دو سال کے لیے کام کرتے ہیں تاہم پیس کور خاص اہلیتوں کے حامل اور ‘رسپانس والنٹیئرز’ کے نام سے معروف رضاکاروں کو مختصر مدتی کاموں کے لیے بھی فلپائن بھیجتی رہتی ہے جن میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری بھی شامل ہے۔
سمندری حیات پر کام کرنے والی سائنس دان مورگن کوری نے 2017 کا سال پلر جزیرے پر گزارا جس کا مقصد سمندری حیات کی دو پناہ گاہوں میں مچھلیاں پکڑنے کی نگرانی کا پروگرام شروع کرنا تھا۔ مقامی ماہی گیروں کے روزگار کا انحصار انہی مچھلیوں پر ہوتا ہے۔ حیران کن طور پر اس دوران وہ کوڑا کرکٹ کو دوبارہ کارآمد بنانے کے ایک منصوبے میں بھی پوری طرح شامل ہو گئیں۔ وہ لکھتی ہیں ”انجام کار’ ہر شے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ کوڑاکرکٹ کو مناسب طریقے سے اگر ٹھکانے نہ لگایا جائے تو یہ سمندر میں جا گرتا ہے۔”

28 سالہ جسٹن کیگون نے 2012 سے 2014 کا عرصہ سورسوگون شہر میں غریب اور لاوارث لڑکوں کے لیے قائم کردہ کیتھولک مرکز ‘کاسا میانی’ میں سماجی کارکن اور استاد کی حیثیت سے گزارا۔ وہ ان میں سے بعض نوجوانوں سے فیس بک پر رابطے میں رہتے ہیں اور ‘کیمونکس انٹرنیشنل’ نامی ایک بین الاقوامی ترقیاتی کمپنی کے لیے کام کرتے ہوئے فلپائن آتے رہتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ رضاکارانہ کام کا یہ دور بچوں کی زندگیوں اور خود ان کی اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لے کر آیا ہے۔
جسٹن کا تعلق امریکی ریاست منیسوٹا سے ہے۔ ان کے والد فلپائن سے ہجرت کر کے امریکہ آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں ”میں نے دو سال کے عرصہ میں ان لڑکوں کو بڑا ہوتے دیکھا۔ کسی کی زندگی میں مستقل مقام پانا ایک اہم بات ہے۔ اس سے مجھے اپنی ثقافت اور پس منظر سے متعلق مزید بہت کچھ جاننے میں مدد ملی ہے۔”
پیس کور کے ابتدائی رضاکار چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں اکٹھے رہا کرتے تھے تاہم آج کے رضاکار میزبان خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں جس سے ان کے لیے خود کو مقامی معاشرتی زندگی سے پوری طرح ہم آہنگ ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ (15 مارچ 2020 سے پیس کور نے دنیا بھر میں اپنی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کر رکھی ہیں۔ تاہم اس ادارے کا منصوبہ ہے کہ جب سفر کرنا محفوظ ہوگا تو رضاکارانہ پروگرام دوبارہ شروع کردیے جائیں گے۔) اِن میں سے بعض ناصرف فلپائنی زبان سیکھ لیتے ہیں بلکہ وہ سیبانو، بیکو ناگا، ہیلی گینن، ایلوکانو اور سورسوگانن جیسی مقامی زبانیں بھی سیکھ جاتے ہیں۔
دیرینہ میراث
یونیورسٹی آف انڈیانا کے مورخ اور فلپائن میں سابق فلبرائٹ سکالر نک کولیدر کو سیبو میں ریڈیو پر صبح کے ٹاک شو میں بروکلین کے لہجے میں بولنے والے امریکی محکمہ خارجہ کے افسر کی باتیں آج تک یاد ہیں۔ یہ افسر روانی سے سیبونو زبان بول رہا تھا جو اس نے پیس کور میں رہتے ہوئے سیکھی تھی۔ پیس کور اور طویل عرصہ سے جاری فلبرائٹ پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے کولیدر کا کہنا تھا کہ ”اس دیرینہ ورثے کے اثرات آج بھی سامنے آ رہے ہیں۔”
سکونوور اور پیس کور کی ایک اور بانی مورین کیرول کے خیال میں یہ میراث فلپائن کی ترقی کے لیے کام کرنے والی پیس کور کی ایلومینائی فاؤنڈیشن کی جانب سے دیے جانے والے وظائف کی صورت میں ابھی تک برقرار ہے جس نے 1983 کے بعد سے اب تک قریباً 880,00 ڈالر جمع کیے اور 240 سے زیادہ نوجوانوں کو کالج بھیجا۔
کیرول نے قریباً 500 صفحات پر مشتمل یادوں کی کتاب ”کینیڈی کی اپیل کا جواب: فلپائن میں امن کور کی ابتدا” کی تدوین میں معاونت کی ہے۔ یہ کتاب ابتدائی رضاکاروں نے 2011ء میں پیس کور کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر لکھی تھی۔
کیرول بوٹسوانا میں امن کور کی ڈائریکٹر بنیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں رضاکاروں کے گرپوں کی تشکیل اور انہیں کام تفویض کرنے کا کام نہایت عجلت میں ہوا۔ وہ کہتی ہیں ”آپ کو خود ہی کوئی شعبہ ڈھونڈنا اور کام شروع کرنا ہوتا تھا۔”
وہ بتاتی ہیں، ”یہ اس پروگرام کی بقا کا امتحان تھا۔ پیس کور آج یہاں اس لیے کھڑی ہے کہ شروع کیے جانے والے ابتدائی پروگراموں کی کامیابیوں نے اس ایک حقیقت بنا دیا ہے۔”
اس سے قبل یہ مضمون 30 نومبر 2018 کو ایک مختلف شکل میں شائع ہو چکا ہے۔