صدر بائیڈن نے 24 فروری کو اپنی تقریر میں یوکرین پر روسی حکومت کے بلا اشتعال حملے کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے ان اقدامات کی وضاحت کی جو امریکہ، نیٹو اور دیگر عالمی اتحادیوں کے تعاون سے اٹھائے گا۔ ذیل میں ان کی تقریر کے مندرجات اور یوکرین کی صورت حال سے متعلق تصاویر پیش کی جا رہی ہیں۔
صدر: سہ پہر بخیر۔ روسی فوج نے یوکرین کے عوام پر وحشیانہ حملہ شروع کر دیا ہے۔ بلا اشتعال، بلا جواز، بلا ضرورت۔

یہ پہلے سے ایک سوچا سمجھا حملہ ہے۔ جیسا کہ ہم ہمیشہ سے کہتے چلے آ رہے ہیں، ولاڈیمیر پوٹن مہینوں سے اس کی منصوبہ بندی کرتا چلا آ رہا تھا۔ اس نے یوکرینی سرحد کے ساتھ پوزیشنوں پر 175,000 سے زیادہ فوجی اور فوجی ساز و سامان منتقل کیا۔
اس نے خون کی فراہمیوں کو محاذ پر منتقل کیا اور فیلڈ ہسپتال بنائے۔ یہ آپ کو وہ سب کچھ بتاتا ہے جو آپ کو اس کے ارادوں کے بارے میں ابتدا سے جاننے کی ضرورت ہے۔

اس نے غیرضروری تنازعات سے بچنے اور انسانی تکالیف سے بچنے کی امریکہ اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کی طرف سے ہمارے باہمی سلامتی کے خدشات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے نیک نیتی سے کی جانے والی کوشش کو مسترد کیا۔

ہم کئی ہفتوں سے خبردار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ایسا ہو گا۔ اور اب یہ وسیع پیمانے پر اُسی طرح سامنے آ رہا ہے جس طرح کہ ہم نے پیش گوئی کی تھی۔
گزشتہ ہفتے ہم مشرقی یوکرین کے علاقے میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقے، ڈونباس میں بڑھتی ہوئی گولہ باری دیکھ چکے ہیں۔
روسی حکومت نے یوکرین کے خلاف سائبر حملے کیے ہیں۔

ہم نے ماسکو میں سیاسی ڈرامہ بازی دیکھی جس میں یہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز دعوے کیے گئے کہ یوکرین روس کے خلاف حملہ کرنے اور جنگ شروع کرنے والا تھا، یہ کہ یوکرین کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار تھا اور یہ کہ یوکرین نے نسل کشی کی ہے۔ تاہم اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔
ہم نے خودمختار یوکرینی سرزمین پر یکطرفہ طور پر دو نئی نام نہاد جمہوریائیں قائم کرنے کی کوشش میں بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا کی جانے والی خلاف ورزی دیکھی۔
اور اسی لمحے جب کہ یوکرین پر حملے کو روکنے اور [یوکرین کی] خود مختاری کے لیے کھڑے ہونے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا، پوٹن نے اپنی جنگ کا اعلان کیا۔

چند لمحوں کے اندر یوکرین کے تاریخی شہروں پر میزائل حملے شروع ہو گئے۔
پھر فضائی حملے ہوئے۔ اس کے بعد ٹینک اور فوجیں داخل ہوئیں۔
ہم دنیا کے سامنے شفافیت کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم روس کے منصوبوں اور سائبر حملوں اور جھوٹے بہانوں کے بارے میں عام کیے جانے والے خفیہ ثبوت سامنے لے کر آئے ہیں تاکہ پوٹن جو کچھ کر رہا ہے اُس کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے یا اُسے چھپایا نہ جا سکے۔

پوٹن حملہ آور ہے۔ پوٹن نے اس جنگ کا انتخاب کیا ہے۔ اور اب وہ اور اس کا ملک اس کے نتائج بھگتیں گے۔
روس کو جو کچھ برآمد کیا جا سکتا ہے میں اس پر آج کڑی اضافی پابندیاں اور نئی پابندیاں لگانے کی اجازت دے رہا ہوں۔
روسی معیشت کو اِن کی فوری اور دور رس قیمتیں چکانا ہوں گیں۔
ہم نے ان پابندیوں کو قصداً ایسے ترتیب دیا ہے کہ روس پر پڑنے والے طویل مدتی اثرات کو زیادہ سے زیادہ کیا جائے اور امریکہ اور ہمارے اتحادیوں پر پڑنے والے اثرات کو کم سے کم کیا جائے۔
میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کام امریکہ اکیلا نہیں کر رہا۔ مہینوں سے ہم شراکت داروں کا ایک ایسا اتحاد تشکیل دے رہے ہیں جو مجموعی عالمی معیشت کے نصف سے زیادہ کی نمائندگی کرتا ہے۔
ہمارے ردعمل کو مضبوط بنانے کے لیے یورپی یونین کے ستائیس ارکان بشمول فرانس، جرمنی، اٹلی کے علاوہ اس میں برطانیہ، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور بہت سے دیگر [ممالک] بھی شامل ہیں۔
میں نے آج صبح ہی جی7 رہنماؤں سے بات کی اور ہم کلی طور پر متفق ہیں۔ ہم عالمی معیشت کا حصہ بننے کے لیے روس کی ڈالر، یورو، پاؤنڈ اور ین میں کاروبار کرنے کی صلاحیت کو محدود کریں گے۔ ہم ایسا [کاروبار] کرنے کی ان کی صلاحیت کو محدود کر دیں گے۔ ہم روسی فوج کی مالی اعانت کی صلاحیت کو کم کریں گے۔
اور ہم اکیسویں صدی کی جدید ٹکنالوجی کی حامل معیشت میں مسابقت کرنے کی اُن کی صلاحیت کو کمزور بنا دیں گے۔
ہم پہلے ہی روس کی کرنسی، روبل پر اپنے اقدامات کے اثرات دیکھ چکے ہیں جو کہ آج صبح اب تک کی تاریخ کی اپنی قدر کی پست ترین سطح پر پہنچ گئی۔ روسی بازار حصص میں تیزی سے گراوٹ آئی۔ روسی حکومت کی قرض لینے کی شرح میں 15 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔

آج کے اقدامات کے تحت ہم نے جن روسی بینکوں پر پابندیاں لگائیں ہیں اُن کے اثاثوں کی مالیت لگ بھگ ایک کھرب ڈالر ہے۔
ہم نے روس کے سب سے بڑے بنک کو امریکی مالیاتی نظام سے کاٹ دیا ہے۔ یہ بنک روسی بنکاری کے ایک تہائی اثاثوں کا مالک ہے۔
اور آج ہم مزید چار بڑے بنکوں کو بھی [امریکہ میں کام کرنے سے] روک رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں ان کے تمام اثاثے منجمد کر دیئے جائیں گے۔ اس میں روس کا دوسرا سب سے بڑا بنک وی ٹی بی بھی شامل ہے جس کے اثاثوں کی مالیت 250 ارب ڈالر ہے۔
جیسا کہ وعدہ کیا گیا ہے، ہم روسی اشرافیہ اور ان کے خاندان کے اُن افراد کے نام بھی فہرست میں شامل کر رہے ہیں جن پر ہم پابندیاں لگانے جا رہے ہیں۔
جیسا کہ میں نے منگل کو کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کریملن کی پالیسیوں سے ذاتی طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں اور اب انہیں اس کے دکھ میں بھی شریک ہونا چاہیے۔ ہم آنے والے دنوں میں بدعنوان ارب پتیوں کے خلاف پابندیوں کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔

منگل کو ہم نے روسی حکومت کو امریکی یا یورپی سرمایہ کاروں سے سرمایہ حاصل کرنے سے روک دیا۔
اب ہم اسی طرح کی پابندیاں روس کے سب سے بڑے سرکاری تجارتی اداروں یعنی کمپنیوں پر بھی لگانے جا رہے ہیں — ایسی کمپنیاں جن کے اثاثے 1.4 کھرب ڈالر سے زیادہ ہیں۔
ہمارے اقدامات کے کچھ انتہائی طاقتور اثرات وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے کیونکہ ہم روس کی معیشت کے سٹریٹجک شعبوں کو مالی وسائل کی فراہمی اور ٹیکنالوجی تک رسائی پر ہاتھ ڈالیں گے اور آنے والے سالوں میں اس کی صنعتی صلاحیت کو کمزور کریں گے۔
ہماری اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کی کاروائیوں کے نتیجے میں ہمارا اندازہ ہے کہ ہم روس کی جدید ٹکنالوجی کی درآمدات کو نصف سے زیادہ کم کر دیں گے۔
اِن [اقدامات] سے اِن کی فوج کو جدید بنانے کی صلاحیتوں کو دھچکا لگے گا۔ اس سے اِن کے خلائی پروگرام سمیت اِن کی خلائی صنعت کو نقصان پہنچے گا۔ اس سے بحری جہاز بنانے کی ان کی صلاحیت کو نقصان پہنچے گا جس کے نتیجے میں معاشی طور پر مسابقت کرنے کی اُن کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔ پوٹن کے طویل المدتی تزویراتی عزائم پر یہ ایک کاری ضرب ہوگی۔
ہم اور بہت کچھ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اقتصادی تعزیرات کے علاوہ جو ہم عائد کرنے جا رہے ہیں، ہم اپنے نیٹو اتحادیوں کے، بالخصوص مشرق میں واقع نیٹو اتحادیوں کے دفاع کے لیے بھی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

کل نیٹو ایک سربراہی اجلاس طلب کرنے جا رہا ہے۔ ہم وہاں موجود ہوں گے۔ [اس کا مقصد] 30 اتحادی ممالک کے لیڈروں اور قریبی شراکت داروں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی یکجہتی کا اعادہ کرنا اور اُن آئندہ اقدامات کا لائحہ عمل وضح کرنا ہے جو ہم نیٹو کے اپنے اتحاد کے تمام پہلوؤں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اٹھائیں گے۔
اگرچہ ہم نے اس سال یوکرین کو 650 ملین ڈالر سے زیادہ کی دفاعی امداد فراہم کی ہے – میرا مطلب پچھلا سال ہے۔ تاہم میں یہ بات دوبارہ کہوں گا کہ ہماری افواج یوکرین میں روس کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ہوں گی۔ ہماری افواج یوکرین میں لڑنے کے لیے نہیں بلکہ نیٹو کے اپنے اتحادیوں کا دفاع کرنے اور مشرق میں ان اتحادیوں کو یقین دلانے کے لیے یورپ جا رہی ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے روزِ روشن کی طرح واضح کر چکا ہوں کہ امریکہ نیٹو کی سرزمین کے ایک ایک انچ کا بھرپور امریکی طاقت کے ساتھ دفاع کرے گا۔ اور اچھی خبر یہ ہے کہ نیٹو پہلے سے کہیں زیادہ متحد اور پرعزم ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور نیٹو کا ہر اتحادی آرٹیکل 5 کے اپنے وعدوں پر پورا اترے گا۔ یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ ایک پر حملہ سب پر حملہ تصور ہوگا۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میں نے نیٹو کے ساتھ اپنی وابستگی کی بنیاد پر جرمنی اور پولینڈ میں ہزاروں اضافی فوجی بھيجنے کا حکم دیا۔ منگل کو روس کی جارحانہ کارروائی کے جواب میں جس میں بیلاروس اور بحیرہ اسود میں اس کی فوج کی موجودگی شامل ہے، ميں نے نیٹو کے مشرقی کنارے کے اتحادیوں ایستونیا، لاتھویا، لیتھوینیا، پولینڈ اور رومانیہ میں پہلے سے یورپ میں موجود زمینی اور فضائی افواج کی تعیناتی کی اجازت دی۔
ہمارے اتحادی بھی آگے آ رہے ہیں۔ ہمارے اجتماعی دفاع کو یقینی بنانے کے لیے وہ اپنی افواج اور صلاحیتیں بھی اس میں شامل کر رہے ہیں۔
اور آج روس کے حملے کے چند گھنٹوں کے اندر، نیٹو کے اتحادی اکٹھے ہوئے اور جوابی منصوبوں کی منظوری دی اور انھيں فعال کیا۔
یہ اقدام نیٹو کی اعلیٰ تیاری کی حامل افواج کو یورپ کی مشرقی سرحدوں پر ہمارے نیٹو اتحادیوں کی حفاظت کے لیے جہاں اور جب ضرورت پڑی وہاں تعینات کرنے کے قابل بنائے گا۔
اور اب میں نیٹو کے ردعمل کے ایک حصے کے طور پر جرمنی میں تعیناتی کے لیے امريکی اضافی افواج اور صلاحیتوں کی تعیناتی کی اجازت دے رہا ہوں۔ اِن میں امريکہ ميں موجود کچھ ایسے فوجی دستے بھی شامل ہیں جن کو محکمہ دفاع نے کچھ ہفتے قبل تیاری کا حکم دے رکھا تھا۔

میں نے وزیر دفاع آسٹن اور جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل ملی سے اضافی اقدامات کی تياری کے حوالے سے بھی بات کی ہے۔ اگر ہمارے نیٹو اتحادیوں کی حفاظت اور دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے فوجی اتحاد نیٹو کی حمایت کے لیے ضروری ہوا تو یہ اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
ایسے میں جب ہم یہ ردعمل دے رہے ہیں، میری انتظامیہ امریکی خاندانوں اور کاروباروں کو پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بچانے کے لیے وہ تمام وسائل استعمال کرے گی جو اسے دستیاب ہیں۔
آپ کو علم ہے کہ ہم لاگتوں کو کم کرنے کے لیے فعال اقدامات اٹھا رہے ہیں اور امریکی تیل اور گیس کمپنیوں کو اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر اسے قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
آپ جانتے ہیں کہ اپنے پابندیوں کے پیکج کو ہم نے اس طرح تیار کیا ہے کہ اس میں خصوصی طور پر توانائی کی ادائیگیوں کو جاری رکھنے کی گنجائش رہے۔
ہم کسی بھی خلل کے لیے توانائی کی سپلائی کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔ ہم عالمی توانائی کی فراہمی کو محفوظ بنانے کی خاطر اپنے مشترکہ مفاد کے لیے تیل پیدا کرنے اور استعمال کرنے والے بڑے ممالک کے ساتھ باہمی رابطے سے کام کر رہے ہیں۔
ہم توانائی استعمال کرنے والے بڑے ممالک کے پیٹرولیم کے تزویراتی ذخائر سے اجتماعی فراہمی کو بڑھانے کے لیے پوری دنیا کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اور امریکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق تیل کی اضافی مقدار فراہم کرے گا۔

میں جانتا ہوں کہ یہ مشکل کام ہے اور امریکی پہلے ہی تکلیف میں ہیں۔ میں مہنگے پٹرول پر امریکی عوام کے درد کو محدود کرنے کے لیے میرے بس میں جو کچھ ہوا وہ کروں گا۔ یہ میرے لیے انتہائی اہم ہے۔ لیکن اس جارحیت کا جواب ديا جانا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو امریکہ کے لیے اس کے نتائج بہت زیادہ خراب ہوں گے۔ امریکہ غنڈوں کے مقابلے ميں کھڑا ہوتا ہے۔ ہم آزادی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی ہمارا کردار ہے۔ مجھے وہ تنبیہ بھی دہرانے دیں جو میں نے پچھلے ہفتے کی تھی۔ اگر روس ہماری کمپنیوں، ہمارے اہم بنیادی ڈھانچے پر دوبارہ سائبر حملے کرتا ہے، تو ہمیں جواب دینے کے لیے تیار پائے گا۔
کئی مہینوں سے ہم اپنے سائبر دفاع کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ روسی سائبر حملوں کا جواب دینے کی اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے نجی شعبے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
میں نے کل رات یوکرین کے صدر زیلنسکی سے بات کی اور میں نے انہیں یقین دلایا کہ امریکہ یورپ میں اپنے شراکت داروں اور اتحاديوں کے ساتھ مل کر یوکریئنی عوام کی ایسے میں حمایت کرے گا جب وہ اپنے ملک کا دفاع کریں گے۔ ہم ان کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے انسانی امداد فراہم کریں گے۔
اور اس تنازعے کے ابتدائی دنوں میں روس کے پروپیگنڈے کے ادارے سچائی کو چھپانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ایک من گھڑت خطرے کے خلاف اپنی فوجی کاروائیوں کی کامیابیوں کے دعوے کرتے رہیں گے۔
لیکن تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ کس طرح علاقے کی شکل میں سرعتی کامیابیاں، تکلیف دہ قبضوں، بڑے پیمانے کی سول نافرمانی کی سرگرمیوں اور تزویراتی بند گلی میں بدل جاتی ہیں۔
اگلے چند ہفتے اور مہینے یوکرین کے لوگوں کے لیے مشکل ہوں گے۔ پوٹن نے ان پر بڑی مصیبتیں ڈھائیں ہیں۔ مگر یوکرینی عوام آزادی کے 30 سال دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو برداشت نہیں کریں گے جو ان کے ملک کو پیچھے کی طرف لے جانے کی کوشش کرے گا۔
یہ پورے یورپ کے لیے [اور] پوری دنیا کی آزادی کے لیے ایک خطرناک لمحہ ہے۔ پوٹن نے ان اصولوں پر حملہ کیا ہے جو عالمی امن کو قائم رکھتے ہیں۔

لیکن اب پوری دنیا واضح طور پر دیکھ رہی ہے کہ پوٹن اور اس کے کریملن کے اتحادیوں کی حقيقت کیا ہے۔ ان کے نزدیک اس [مسئلے] کا تعلق سکیورٹی کے حقیقی خدشات سے کبھی بھی نہ تھا۔ اس کا تعلق ہمیشہ ننگی جارحیت سے تھا۔ اس کا تعلق پوٹن کی روس کے پڑوسیوں کو زور زبردستی اور بدعنوانی کے ذریعے ڈرا دھمکا کر، بزورِ طاقت سرحدیں تبدیل کر کے اور آخرِکار ایک بے مقصد جنگ کا انتخاب کر کے یا کسی بھی طریقے سے ایک سلطنت کی خواہش پوری کرنے سے تھا۔
پوٹن کے اقدامات ہماری دنیا کے مستقبل کے لیے ایک بدخواہ تصور پيش کرتے ہیں، جہاں قومیں طاقت کے بل بوتے پر جو کچھ چاہیں وہ لے لیتی ہیں۔
لیکن یہ ایک ایسا تصور ہے جس کی امریکہ اور آزادی پسند قومیں اپنی ساری طاقت کے تمام وسیلوں کو بروئے کار لا کر مخالفت کریں گیں۔
امریکہ اور ہمارے اتحادی اور شراکت دار اس سے زیادہ مضبوط، زیادہ متحد، زیادہ پرعزم اور زیادہ بامقصد ہو کر نکلیں گے۔
یوکرین کے خلاف پوٹن کی جارحیت روس کو اقتصادی اور تزویراتی لحاظ سے مہنگی پڑے گی۔ ہم ایسا ہونے کو یقینی بنائیں گے۔ پوٹن بین الاقوامی سطح پراچھوت بن جائے گا۔ کوئی بھی ملک جو یوکرین کے خلاف روس کی ننگی جارحیت کا ساتھ دے گا اس کا دامن اس ساتھ سے داغدار ہو جائے گا۔
جب اس دور کی تاریخ لکھی جائے گی تو یوکرین کے خلاف مکمل طور پر بلاجواز جنگ کرنے کا پوٹن کا انتخاب روس کو کمزور اور باقی دنیا کو مضبوط بنا دے گا۔

آزادی، جمہوریت، انسانی وقار۔ یہ وہ قوتیں ہیں جو خوف اور جبر سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ انہیں پوٹن اور اس کی افواج جیسے ظالم شکست نہیں دے سکتے۔ انہیں کسی بھی قسم کے تشدد اور دھمکیوں سے لوگوں کے دلوں اور امیدوں سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ وہ سلامت رہتی ہیں۔
کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کیونکہ جمہوریت اور آمریت کے درمیان، حاکمیت اور محکومیت کے درمیان مقابلے میں، آزادی غالب آ کر رہتی ہے۔
خدا ایک آزاد اور جمہوری یوکرین کے لوگوں پر رحمتیں نازل کرے۔ اور خدا ہماری فوجوں کی حفاظت کرے۔