یہ مضمون قسط وار مضامین کے اُس سلسلے کا حصہ ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ روسی حکومت اور ولاڈیمیر پوٹن نے دنیا میں شہریوں پر کیے جانے والے کیمیائی حملوں میں اپنے یا اپنے اتحادیوں کے ملوث ہونے پر کس طرح پردہ ڈالا۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین میں خان شیخون، شام میں 2017 کے سارین گیس کے حملے اور روس کے سابق انٹیلی جنس افسر سرگئی سکریپال کو 2018 میں زہر دینے کا جائزہ لیا گیا ہے۔

جب روس میں ایک متحرک سرکردہ سیاسی کارکن نے صدر ولاڈیمیر پوٹن کو چیلنج کرنے کی ہمت کی تو اس کے نتیجے میں اُنہیں سابق سوویت یونین کے دور میں فوجی مقاصد کے لیے تیار کیا جانے والا ‘ نوویچوک’ نامی زہر دے دیا گیا۔
اگست 2020 میں الیکسی ناوالنی کی روس کے شہر ٹامسک سے ماسکو جانے والی پرواز کے دوران طبیعت شدید شدید خراب ہو گئی۔ ہنگامی لینڈنگ کے بعد انہیں اومسک کے ایک ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کے دو روز بعد ناوالنی کو برلن کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ صحت یاب ہوئے۔

ستمبر 2020 میں جرمن لیبارٹری کے تکنیکی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ ناوالنی کو نوویچوک گروپ سے تعلق رکھنے والا اعصاب شکن زہر دیا گیا تھا۔ یہ زہر اسی طرح کا تھا جو روسی ملٹری انٹیلی جنس سروس (جی آر یو) نے 2018 میں برطانیہ میں برطانیہ کے ایک شہری کی حیثیت سے رہنے والے، سرگئی سکریپال کو قتل کرنے کی ایک کوشش کے دوران استعمال کیا گیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں سکریپال، ان کی بیٹی یولیا اور ایک برطانوی افسر ہسپتال میں داخل ہوئے۔ اس کے چند ماہ بعد ایک برطانوی شہری کی بھی اسی وجہ سے موت واقع ہوئی۔
سویڈن اور فن لینڈ میں آزادانہ طور پر کام کرنے والی قومی لیبارٹریوں اور کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم نے ناوالنی کے معاملے میں جرمن لیبارٹری کے نتائج کی تصدیق کی۔ (دیکھیے کہ اعصابی ایجنٹ اتنے مہلک کیوں ہوتے ہیں۔)
دسمبر 2020 میں آزاد صحافیوں کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے روس کی فیڈرل سکیورٹی سروس کو زہر دینے میں ملوث پایا۔ یہ ٹیم نیدرلینڈ میں مقیم ایک تحقیقاتی صحافتی گروپ، بیلنگ کیٹ اور جرمنی کے ڈر شپیگل اور سی این این کے دی انسائیڈر گروپ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں پر مشتمل تھی۔ بعد میں امریکہ اور دیگر ممالک نے بھی اس نتیجے کی تصدیق کی۔

جب زہر کا انکشاف ہوا تو کریملن نے ایک گمراہ کن جارحانہ مہم کا آغاز کر دیا۔ اس مہم کا مقصد روسی حکومت کے اس حملے میں ملوث ہونے، نوویچوک تک رسائی حاصل ہونے یا ناوالنی کو زہر دینے کے پیچھے روسی حکومت کے کسی مقصد کے ہونے سے انکار کرنا تھا۔
دروغ گوئیوں سے توجہ ہٹانا
اومسک ہسپتال کے تکنیکی ماہرین نے جو ممکنہ طور پر روسی سکیورٹی سروسز کے دباؤ میں تھے، کہا کہ ممکن ہے کہ ناوالنی شراب کے استعمال، تھکاوٹ یا ناقص خوراک کی وجہ سے بیمار ہوئے ہوں۔ پوٹن کے وفاداروں اور ریاست کے زیر کنٹرول میڈیا نے بڑے پیمانے پر اس غلط نظریے کا چرچا کیا۔
روسی عہدیداروں اور حکومت کے زیر انتظآم چلنے والے میڈیا نے منددرجہ ذیل سمیت کئی ایک جھوٹَ دعوے کیے:-
- فضائی سفر سے قبل ناوالنی نے “دیہاتوں میں بنائی جانے والی دیسی شراب” پی۔
- زہر دینے کا واقعہ جرمنی میں پیش آیا روس میں نہیں۔
- جرمنی اور امریکہ سمیت مغربی حکومتیں اس واقعے کو من گھڑت رنگ دے کر روس پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
EUvsDisinfo [ای یو ورسز ڈِس انفو] نامی پراجیکٹ کے مطابق کریملن کے حامی میڈیا کے اداروں نے اگست 2020 اور جنوری 2021 کے درمیان زہر کے بارے میں 200 سے زائد جھوٹے مضامین اور قصے شائع کیے۔ یہ پراجیکٹ روس کی گمراہ کن معلومات کی مہموں کا جواب دینے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ مذکورہ پراجیکٹ یورپی یونین کے اسی پراجیکٹ کا ایک حصہ تھا۔
ناوالنی کو جرمنی جانے کی اجازت دینے کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا کہ روس کی حکومت زہر دینے میں ملوث نہیں تھی۔
پوٹن نے دسمبر 2020 میں کہا، “اگر [سکیورٹی سروسز] واقعی اسے زہر دینا چاہتی تھیں، تو غالباً، وہ اسے انجام تک پہنچاتیں۔”
ناوالنی کو گرفتار کرن
ناوالنی کو 17 جنوری 2021 کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ جرمنی سے واپس روس پہنچے۔ بعد میں ضمانت کی خلاف ورزیوں پر انہیں اڑھائی سال کی سزا سنائی گئی۔ مارچ 2022 میں انہیں دھوکہ دہی اور توہین کے الزام میں انتہائی سکیورٹی والی جیل میں نو سال کی سزا سنائی گئی۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اِن الزامات اور سزاؤں کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما ہیں۔
جیل میں قید کے دوران ناوالنی نے سوشل میڈیا کے ذریعے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی مذمت کی ہے۔
کریملن کی کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں غلط معلومات کی مہم یوکرین میں آج بھی جاری ہے۔ اس مہم کے دوران وہ اپنی جنگی کاروائیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے دوسروں پر الزامات لگانے کی کوششیں کر رہا ہے۔