یہ مضمون قسط وار مضامین کے اُس سلسلے کا حصہ ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ روسی حکومت اور ولاڈیمیر پوٹن نے دنیا میں شہریوں پر کیے جانے والے کیمیائی حملوں میں اپنے یا اپنے اتحادیوں کے ملوث ہونے پر کس طرح پردہ ڈالا۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین میں خان شیخون، شام میں 2017 کے سارین گیس کے حملے اور فعال سیاسی کارکن الیکسی ناوالنی کو 2020 میں زہر دینے کا جائزہ لیا گیا ہے۔

مارچ 2018 میں برطانوی شہری سرگئی سکریپال جو کہ روسی انٹیلی جنس کے افسر کے طور پر کام کیا کرتے تھے اور ان کی بیٹی یولیا، دونوں نوویچوک نامی زہریلی مادے کا نشانہ بنے اور مرتے مرتے بچے۔ فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا نوویچوک ایک اعصاب شکن مواد ہے جسے سابقہ سوویت کے دور میں تیار کیا گیا تھا۔

فوری طور پر روسی حکام نے میڈیا اور سفارتی فورموں کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی طریقےسے اپنے ملوث ہونے کی تردید کی۔ (جانیے کہ اعصاب شکن مواد اتنے مہلک کیوں ہوتے ہیں۔)
تاہم ہفتوں کے اندراندر امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے رہنما یہ کہتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ اس حملے کے پیچھے روسی حکومت کا ہاتھ تھا اور یہ کہ اس کی “کوئی متبادل قرینِ قیاس وضاحت موجود نہیں۔”
تین ماہ بعد ایمزبری، انگلینڈ میں ایک برطانوی جوڑا پرفیوم کی ایک بوتل کے رابطے میں آیا جس کے بعد یہ جوڑا شدید بیمار ہو گیا۔ درحقیقت اس بوتل میں وہی زہر تھا جس سے سکریپال اور اُن کی بیٹی متاثر ہوئے تھے۔ عورت بعد میں مر گئی۔ اس نے پرفیوم سمجھ کر اپنی کلائی پر اس بوتل میں بند مادے کا سپرے کیا تھا۔
ستمبر 2018 میں برطانوی حکام نے روس کی ملٹری انٹیلی جنس کے دو افسروں کی غیر موجودگی میں اُن پر قتل کی سازش، قتل کی کوشش اور نوویچوک اعصاب شکن مادے کے استعمال کا الزام عائد کیا۔
مارچ 2018 تک امریکہ سمیت 20 سے زائد ممالک نے برطانیہ کی حمایت میں اور زہر دینے کے احتجاج کے طور 153 روسی سفارت کاروں اور انٹیلی جنس افسروں کو ملک بدر کیا۔
روسی صدر ولاڈیمیر پوٹن نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ سکریپال کیس میں گرفتار کیے جانے والے دونوں حملہ آور “عام شہری تھے، مجرم نہیں تھے۔” دونوں ایجنٹ ریاست کے زیر کنٹرول چلنے والے آر ٹی سٹیشن (سابقہ رشیا ٹوڈے) پر نمودار ہوئے اور کہا کہ وہ برطانیہ سیاحوں کی حیثیت سے گئے تھے۔

روسی حکام اور سرکاری میڈیا نے واقعے کے بعد مندرجہ ذیل سمیت کئی جھوٹے دعوے پھیلائے:۔
- یہ واردات کسی اور نے کی: امریکہ، یوکرین، برطانیہ اور جلاوطن روسی امراء نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی۔
- یہ نوویچوک نہیں تھا: یہ “نیٹو کا کوئی زہر” تھا یا سکریپال کیمیائی ہتھیارسمگل کر رہا تھا۔
- یہ حملہ کبھی ہوا ہی نہیں: نیٹو نے بجٹ میں اضافے کا جواز پیش کرنے کے لیے زہر دینے کی رپورٹوں کو استعمال کیا اور برطانیہ نے انہیں بریگزٹ سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا۔
اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ لیب کے 2018 کے تجزیے کے مطابق حملے کے تین ہفتے بعد اس کے بارے میں دو تہائی سوشل میڈیا پوسٹیں کریملن کے حامی ذرائع سے آئیں۔
حکومت کے زیرانتظآم چلنے والے، آر ٹی اور سپتنک دو سرکاری ٹیلی ویژن نیٹ ورکس نے مغربی میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں اس واقعے کے بارے میں سینکڑوں گمراہ کن کہانیاں گھڑیں۔
کریملن کی کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں غلط معلومات کی مہم یوکرین میں آج بھی جاری ہے جس میں اپنی کاروائیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔