فاطمہ ناماٹوسی مشرقی یوگنڈا کے بنگوکھو میبل علاقے میں واقع شنندہ نامی دیہات کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ تاہم وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کا پختہ عزم لیے ہوئے تھیں۔ اُن کے بڑے بھائی نے فاطمہ کی تعلیمی اخراجات پورے کرنے میں مدد کی جبکہ تعلیم میں بہترین کارکردگی دکھا کر فاطمہ نے اپنی ذمہ داری پوری کی۔
فاطمہ اور اُن کی والدہ نے جب چاول کی کاشت کاری اور دیگر فصلوں کا آغاز کیا تو اُن کی محنت کا اُنہیں پھل ملا۔ اپنی باقاعدہ تعلیم اور تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور امریکی اعانت سے چلنے والے ایک پروگرام کی مدد سے، فاطمہ نے اپریل 2015 میں ‘بائیفے فوڈز’ نامی ایک کمپنی قائم کی۔ اُن کے کاروبار کے تحت پیٹھے کی فصل کو ایک عمل سے گزارنے کے بعد اس کا آٹا تیار کر کے ملک بھر میں فروخت کیا جاتا ہے۔
اپنی کمپنی کے قیام کے ابتدائی مراحل میں فاطمہ نے ‘فیڈ دا فیوچرز یوگنڈا یوتھ لیڈرشپ فار ایگریکلچر پراجیکٹ” [زراعت میں یوگنڈا کی مستقبل کی قیادت کو خوراک مہیا کرنے کے] منصوبے کے ساتھ براہ راست کام کیا۔ امریکہ کا بین الاقوامی ترقی کا اداراہ [یو ایس ایڈ] اس منصوبے کی مدد کرتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 10 سے 35 سال کی عمر کے افراد کو زراعت کے قابل منافع سلسلے تک مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

یوگنڈا اور دوسرے ملکوں میں یو ایس ایڈ فاطمہ جیسے نوجوان افراد کے لیے نئے مواقع فراہم کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ لوگ دوسرے لوگوں کے لیے موقعے پیدا کرتے ہیں۔
یو ایس ایڈ کی اضافی مدد سے فاطمہ نے اپنا کاروبار بڑھا لیا ہے۔ وہ اب 640 نوجوان کاشت کاروں کو کم لاگت اور آسانی سے پیٹھے کاشت کرنے کے طریقے سکھاتی ہیں اور اُنہیں بتاتی ہیں کہ اعلٰی معیار کے پیٹھوں کی منڈی میں اچھی قیمت لگتی ہے۔ وہ لوگوں کو یہ بھی بتاتی ہیں کہ پیٹھے سے تیار کردہ کھانے تیزابیت کے خاتمے، پروٹین اور وٹامنز کا زبردست ذریعہ ہیں۔
امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امدادی رقم کو استعمال میں لاتے ہوئے فاطمہ نے پیٹھوں کو خشک کرنے والا ایک شمسی ڈرائر خریدا جس کے استعمال سے وہ نوجوان کاشت کاروں سے خریدے جانے والے پیٹھوں سے 15 لاکھ کلو گرام خوردنی اشیا تیار کرتی ہیں۔ سکولوں اور سپر مارکیٹوں کو براہ راست فروخت کرنے سے بائیفے کمپنی ہر سال 640,000 ڈالر کا کاروبار کرتی ہے۔

فاطمہ کی کمپنی کے عملے میں 20 افراد مستقل بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔ وہ 5,000 کاشت کاروں کے ایک نیٹ ورک کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں جن میں سے 90 فیصد ایسی عورتیں شامل ہیں جو اپنے گھرانوں اور بچوں کے لیے ضروریات زندگی فراہم کرتی ہیں۔ اُن کا کاشت کاروں کے اپنے نیٹ ورک کو وسعت دینے کا منصوبہ بھی ہے جس کے تحت وہ ایسے کاشت کاروں کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کرنا چاہتی ہیں جو باجرہ، چاول، مکئی، سویا بین، امارینتھ قسم کے اناج اور میٹھے آلو کاشت کرتے ہیں۔ وہ جدید آلات کے استعمال میں کسانوں کی مدد بھی کرنا چاہتی ہیں تاکہ اُن پرانے طریقوں پر انحصار کو تبدیل کیا جا سکے جن سے اب زیادہ پیداوار نہیں حاصل کی جا سکتی۔
۔اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اُن کے کام سے نوجوان لڑکیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، فاطمہ کہتی ہیں، ” میں چاہتی ہوں کہ …اس حقیقت کو آشکار کیا جائے کہ وہ طاقتور ہیں کیونکہ میں اس کی ایک زندہ مثال ہوں۔”
بین الاقوامی ترقی کا امریکی ادارہ اس مضمون کو مفصل شکل میں شائع کر چکا ہے۔