چار عرب نژاد امریکیوں کے امریکہ کے بارے میں تاثرات

زینب السوئیج (© Sarah L. Voisin/The Washington Post/Getty Images)
زینب السوئیج (© Sarah L. Voisin/The Washington Post/Getty Images)

کامیاب عرب نژاد امریکی “امریکی مقررین کے پروگرام” کے تحت کویت سے لے کر لیبیا تک مشرق وسطی کے تمام ممالک کے دورے کر چکے ہیں۔ وہ سامعین کو ذاتی طور پر یا ورچوئل طریقے سے اپنے امریکی تجربات کے بارے میں بتا چکے ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں سے چند ایک کہانیاں ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:

‘ امریکی معاشرے کی رنگا رنگی’

گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں زینب السوئیج نے مشترکہ طور پر امریکی اسلامی کانگریس کے نام سے ایک غیر منفعتی اور غیرمذہبی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ بنیادی طور پر یہ تنظیم سول سوسائٹی اور شہری حقوق کو فروغ دیتی ہے، قبولیت کو پروان چڑہاتی ہے اور امریکہ کی مسلمان برادری میں اعتدال پسند آوازوں کو متحرک کرتی ہے۔

تقریروں کے بعد اُن سے عام طور پر یہ سوال پوچھا جاتا ہے، “کیا آپ کو امریکہ میں سر پر دوپٹہ اوڑھنے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے؟”

اُن کا جواب ہوتا ہے: “نہیں۔”

انہوں نے کہا، “میں ثقافتوں، نسلوں کی امتزاج امریکی رنگا رنگی کا ایک حصہ ہوں اور اپنے ورثے سے اپنا تعلق برقرار  رکھتے ہوئے ہم سب جو کچھ ہیں اُس پر ہمیں فخر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں امریکی ہونے پر بھی فخر ہے۔”

السوئیج 1991ء میں صدام حسین کے خلاف بغاوت کے بعد نئی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے عراق سے امریکہ آئیں تھیں۔ عرب نژاد امریکی ہونے نے انہیں یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی مشترکہ شناخت کی خوشی منائیں، جمہوریت سے لطف اندوز ہوں اور “ایک ایسی آزادی میں” خدا کی عبادت کریں “جو میں حاصل نہیں کر سکتی تھی۔”

انہوں نے امریکہ کے بارے میں کہا، “یہ ایک ایسا ملک ہے جو بطور انسان آپ کی قدر کرتا ہے اور آپ کو ایک شخص کی حیثیت سے اپنے آپ کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں دوسروں کی مدد کرنے کا موقع بھی  فراہم کرتا ہے۔”

 ‘ نعمت یافتہ شخص’

 فارس عالامی (Courtesy Faris Alami)
فارس عالامی (Courtesy Faris Alami)

تارکین وطن اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے مواقع پیدا کرنے والی تنظیموں کی حمایت کرنے والے انٹرنیشنل سٹریٹجک منیجمنٹ نامی ادارے کے بانی اور چیف ایگزیکٹو بننے سے پہلے، فارس عالامی نے چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کیں حتی کے مختصر عرصے کے لیے بے گھری کا سامنا کیا۔

1990ء میں ہونے والی پہلی خلیجی جنگ کے دوران فلسطینی علاقوں سے نیویارک شہر تک کا ان کا سفر سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ دنیا میں بھوک کے شکار لوگوں کے لیے رقم جمع کرنے والے ٹی شرٹوں کا اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے، عالامی چند ماہ تک امریکہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ رہے۔

انہوں نے بتایا، “میں (ایک مہینے میں) 400 ڈالر کماتا تھا۔ یہ رقم کچھ زیادہ تو نہیں ہوتی تھی مگر میرے لیے 400 ڈالروں کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک دن میں ایک سے زیادہ کھانا کھا سکتا تھا۔”

اُس کے بعد انہوں نے اپنا مختلف پروگرام تیار کرنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے والا کاروباری نظامت کاروں اور چھوٹے کاروباروں کی ترقی میں مدد کرنے والا کامیاب کاروبار شروع کیا۔ اس  سے پہلے انہوں نے عطرفروخت کیے، لیموزین چلائی اور ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور میں کام کیا۔

عالامی نے کہا، “مجھ پر نعمتیں برسیں۔”

‘ بہترین گھر’

 رائے عبدو (Courtesy Roy Abdo)
رائے عبدو (Courtesy Roy Abdo)

رائے عبدو کہتے ہیں کہ امریکہ میں آپ جس طرز کی زندگی چاہتے ہیں وہ بنا سکتے ہیں کیونکہ ناگزیر رکاوٹوں کے باوجود آپ اپنی تقدیر بنا سکتے ہیں۔

عبدو کہتے ہیں، “میں ان سے کہتا ہوں کہ ‘میں آپ کو چابیاں دینے لگا ہوں’ اور پھر انہیں چابیاں لینا ہوں گی اور خود ہی دروازے کھولنا ہوں گے۔”

لبنانی نژاد امریکی رائے لکھنے پڑھنے میں دقت کی بیماری “ڈسلیکسیا” اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور تحرک کے نظام میں خرابی کا شکار ہیں۔ انہوں نے ڈیجیٹل ریویمپ کی بنیاد رکھی۔ یہ کمپنی غیرمنفعتی اداروں، نئی کمپنیوں اور فارچون 500 کمپنیوں کے لیے ڈیجیٹل حکمت عملیاں تیار کرتی ہے۔ عبدو ڈیجیٹل ریویمپ کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔

عبدو 2006ء میں لبنان سے نکلنے کے لیے آخری پروازوں میں سے ایک پرواز میں سوار ہوئے جس کے بعد “جولائی کی جنگ” کی وجہ سے بیروت کا رفیق حریری بین الاقوامی ہوائی اڈہ بند ہو گیا۔ وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ساتھ تین ہفتوں کی ایک شراکت داری کے ذریعے یونان کے شہر کریٹ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونان پہنچے۔ جب پروگرام ختم ہوا تو لڑائی کی وجہ سے وہ وطن واپس نہ لوٹ سکے۔ لیکن مزوری کے ولیم جیول کالج کے ایک سابق طالب علم  نے ان کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدا اور اُن کے کالج میں تعلیم جاری رکھنے کے لیے ایک سکالرشپ کا بندوبست کیا جس میں رہائش، کھانا پینا، اور کالج کی فیسوں پر اٹھنے والے اخراجات شامل تھے۔

انہوں نے کہا، “امریکہ ایک ایسا بہترین گھر ہے جس کی میں کبھی بھی تمنا کر سکتا تھا۔”

‘واپس لوٹانا’

 اکرم الیاس (Courtesy Akram Elias)
اکرم الیاس (Courtesy Akram Elias)

اکرم الیاس کے نزدیک امریکی ہونا سوچ کا ایک ایسا انداز ہے جس کی وضاحت اِن تین دستاویزوں میں کر دی گئی ہے: یعنی اعلان آزادی، امریکی آئین، اور حقوق کا منشور۔

الیاس کیپیٹل کمیونیکیشنز گروپ انکارپوریٹڈ کے بانی اور صدر ہیں۔ اس کمپنی کی توجہ عوامی سفارت کاری، وفاقیت، سیاسی تعلقات، ثقافتوں کے مابین روابط اور بین الاقوامی سطح پر کاروباری میل جول پر مرکوز ہوتی ہے۔

وہ اپنے سامعین کو بتاتے ہیں کہ دیگر ممالک میں شناخت کی بنیاد عام ثقافتی روایات، خونی رشتوں اور مذہبی عقائد پرہوتی ہے۔  مگر امریکہ میں بانی آبا نے تین دستاویزیں تیار کیں جو کہ ایک ایسا غیرمعمولی نظریہ ہیں جو وضاحت سے یہ بتاتا ہے کہ امریکی ہونے کا مطلب کیا ہے۔

الیاس کہتے ہیں، “آپ ہمارے ‘ ثقافتی ورثے’ کے کسی بھی پہلو سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، مگر مربوط ہونے اور امریکی بننے کے لیے آپ سیاسی سوچ کے اسی انداز، اسی نظریے کو اپناتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم، عوام نے ایک دوسرے کے اِن حقوق کو حاصل کرنے کے لیے ووٹ دیئے ہیں۔ یہ تخلیقی طاقت کا ایک تحفہ ہیں۔”

الیاس لبنانی نژاد امریکی ہیں۔ وہ تقریبا 40 برسوں سے واشنگٹن کے علاقے میں رہ رہے ہیں۔ وہ جو کام کر رہے ہیں انہیں اُس کا جنون ہے۔

انہوں نے کہا، “واپس لوٹانے کا یہ میرا طریقہ ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔”