
جب سوڈان کے علاقے دارفر میں زندگی عدم استحکام کا شکار ہو گئی تو فاطمہ (اصلی نام نہیں) نے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہمراہ بھاگ کر مشرقی چاڈ میں واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں پناہ لی۔ اگرچہ وہاں اُسے جان کی سلامتی تو مل گئی مگر بے گھری اُس کے لیے نئے مسائل کا مجموعہ لے کر آئی۔
فاطمہ نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر سبزیاں اگانے اور بکریاں پالنے کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا کرائے پر حاصل کیا۔ مگر اس کے فوراً بعد اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بنجر زمین اور بے وقت بارشوں کی وجہ سے بہت کم سبزیاں پیدا ہوئیں جو زندگی گزارنے کے لیے ناکافی تھیں۔ اسے بہتر زرعی طریقے سیکھنے کی ضرورت تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ کس سے رابطہ کیا جائے۔
“لوتھرن ورلڈ فیڈریشن” کی شراکت سے محکمہ خارجہ نے “مشرقی چاڈ میں سوڈانی پناہ گزینوں اور میزبان برادریوں کے لئے خود انحصاری اور پر امن بقائے باہمی” کے نام سے 2017ء میں ایک پروگرام شروع کیا جس کا مقصد پناہ گزین برادریوں میں بھوک کو کم کرنا اور فاطمہ جیسے لوگوں کو بنجر علاقوں میں کھیتی باڑی کے بہتر طریقے سیکھنے میں مدد دینا تھا۔
لوتھرن ورلڈ فیڈریشن کے نمائندے نے کہا کہ یہ پروگرام پناہ گزینوں اور اُن کی کمیونٹیوں کو “خود انحصاربناتا ہے اور غذائی امداد پر انحصاری کو ختم کرتا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی گزر بسر خود کرسکیں تو” اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ وہ نئے سرے سے اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے کسی دوسری جگہ کی تلاش کی بجائے ” اُنہی جگہوں پر رہتے رہیں جہاں وہ رہ رہے ہیں۔”
گو کہ پناہ گزینوں اور میزبان کمیونٹیوں میں تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے تاہم یہ پروگرام کھیتی باڑی کی تکنیکوں کو سیکھنے کے عمل کے ذریعے کمیونٹی کے جذبے کو پروان چڑہاتا ہے۔
اس علاقے سے آنے والی کہانیاں اس پروگرام کی کامیابی کا ثبوت ہیں۔ فاطمہ کے معاملے میں کھیتی باڑی سے ہونے والی آمدنی سے فاطمہ نے اپنی زمین خریدی، بچوں کو سکول بھیجنا شروع کیا اور اُن کے لیے نئے کپڑے خریدے۔

محکمہ خارجہ کے آبادی، پناہ گزینوں، اور ہجرت کے بیورو کے مطابق مشرقی چاڈ میں تین لاکھ سے زائد پناہ گزین موجود ہیں اور جتنا زیادہ ممکن ہو سکے اتنے زیادہ پناہ گزینوں تک پہنچنا ضروری ہے۔ ابھی تک اس پروگرام کے تحت پناہ گزینوں کے 13,500 سے زائد گھرانوں کی مدد کی جا چکی ہے۔
امریکہ پوری دنیا میں واحد ملک کی حیثیت سے انسانی بنیادوں پر سب سے زیادہ امداد مہیا کرنے والا ملک ہے۔ فاطمہ کی کہانی اس بات کی محض ایک مثال ہے کہ امریکہ بے گھر افراد کی اُن کے گھروں کے قریب اس وقت تک کیسے مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ بحفاظت اور اور اپنی مرضی سے اپنے اپنے ممالک کو واپس جانے کے قابل نہیں ہو جاتے۔