چرنوبل تباہی کے دہائیوں بعد یوکرینی جوہری مقامات کا دفاع کر رہے ہیں

تابکای کے ایک سائن کے قریب ایک تباہ شدہ وین جس پر انگریزی حرف
16 اپریل کو یوکرین میں چرنوبل کے بجلی کے جوہری پلانٹ کے قریب ایک تباہ شدہ وین جس پر انگریزی حرف "وی" لکھا ہوا ہے جو کہ روسی فوج کا نشان ہے۔ (© Efrem Lukatsky/AP Images)

چرنوبل کے جوہری بجلی گھر میں 26 اپریل 1986 کو ہونے والے دھماکے میں چند ہفتوں کے اندر 30 افراد ہلاک جبکہ لاکھوں کو تابکاری کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا کی اس بدترین جوہری تباہی کے بعد آنے والے دنوں میں بہادر یوکرینیوں کے اقدامات نے اس سے بھی آنے والی کہیں بڑی ایک اور تباہی کو روکا۔

اس تباہی کو چھتیس سال ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ 26 اپریل کو بین الاقوامی “چرنوبل تباہی کی یاد کے دن” کے طور پر مناتی ہے۔ آج یوکرینیوں کو روسی صدر ولاڈیمیر پوٹن کی یوکرین کے خلاف جنگ کے دوران اس مقام اور آس پاس کی آبادیوں کی حفاظت کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ (1986 کے حادثے کے وقت، شہر کے ہجے Chernobyl کیے جاتے تھے جو کہ روسی ہجوں کی رومن انگلش کی ایک شکل ہے۔ مگر اب اس کے انگریزی ہجے Chornobyl کے طور پر کیے جاتے ہیں۔)

کریملن کی فورسز نے 24 فروری کو چرنوبل پر قبضہ کر لیا اور یوکرین کے نیشنل گارڈ کے اراکین اور اس جگہ کا انتظام چلانے والے اور استعمال شدہ ایندھن اور دیگر تابکاری مواد کو سنبھالنے والے یوکرینی عملے کو یرغمال بنا لیا۔

 چرنوبل کی یادگار (State Dept./M. Gregory. Photo: © SSvyat/Shutterstock.com)
(State Dept./M. Gregory)

یوکرین کے انجنیئر ہفتہ بھر سے زائد محاصرے کے دوران اس پلانٹ کو محفوظ رکھنے کا کام کرتے رہے۔ تابکاری سے تحفظ کے نگران، اولیگزینڈر لوباڈا نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے تین دن تک جاری رہنے والی بجلی کی بندش کے دوران اس پلانٹ کو چلائے رکھنے کے لیے روسی فوجیوں کا ڈیزل بطور ایندھن استعمال کرنے کے لیے چرایا۔

لوباڈا نے کہا، “تابکار مواد خارج ہو سکتا تھا۔ اس سے [ہونے والی تباہی] کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مجھے اپنی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مجھے ڈر اس بات کا تھا کہ اگر میں وہاں پلانٹ کی نگرانی کرنے کے لیے نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا۔”

ماہرین کا کہنا ہے کہ پوٹن کی فوج یکم اپریل کو چرنوبل سے چلی گئی۔ مگر اس سے پہلے انہوں نے اس پلانٹ کے ارد گرد مورچے کھودے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ انہوں نے خود کو [تابکاری] سے آلودہ کر لیا ہوگا۔

  ایک اور تباہی سے بچاؤ

1986 میں جب یہ حادثہ پیش آیا تو اس سے آج کے بیلاروس، یوکرین اور روس پر سوویت یونین کے بڑے حصوں  کے ساتھ ساتھ وسطی اور مشرقی یورپ کے بڑے حصوں پر بھی تابکاری کا ایک بادل چھا گیا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تینوں ممالک میں تقریباً 84 لاکھ افراد کو تابکاری کی اچھی خاصی سطحوں کا سامنا کرنا پڑا۔

سوویت حکومت نے 1990 میں جا کر بین الاقوامی امداد کی ضرورت کو تسلیم کیا اور بہت سی تفصیلات عوام سے چھپائے رکھیں۔

2018 میں یوکرین کے سابق صدر پیٹرو پوروشینکو نے “خودکش دستے” کے نام سے مشہور ہونے والے تین افراد کو ان کی بہادری پر “آرڈر فار کریج” نامی ایوارڈ دیا۔ اِن تین افراد میں انجنیئر الیکسی اینانینکو اور والیری بیزپالوف اور شفٹ سپروائزر، بورس بارانوف شامل تھے جنہوں نے گہرے آلودہ پانی میں داخل ہو کر پانی خارج کرنے والا والو تلاش کیا اور پانی سے بھرے ہوئے تالاب کو خالی کیا۔ اس طرح ایک اور دھماکے کو روکا۔

ڈیلی میل کے مطابق پوٹن کی جنگ کی وجہ سے ان افراد میں سے ایک، 62 سالہ اینانینکو کو اپنی اہلیہ کے ساتھ مارچ کے اوائل میں کیف میں اپنے گھر سے بھاگنا پڑا۔ اینانینکو کی اہلیہ ویلنٹینا نے کہا، “میں کبھی بھی روس سے اتنی ناراض نہیں ہوئی مگراب مجھے احساس ہوا ہے کہ میں یوکرین کے لوگوں کی اِس نسل کشی اور بحیثیت قوم اپنی اِس تباہی کو معاف نہیں کر سکتی۔”

 مورچے اور عارضی طور پر نصب شدہ خیمے (© Efrem Lukatsky/AP Images)
روسی فوجیوں نے یوکرین کے شہر چرنوبل میں چرنوبل کے بجلی کے پلانٹ کے قریب انتہائی تابکاری والی مٹی کو کھود کر مورچے اور فائرنگ کی جگہیں بنائیں۔ (© Efrem Lukatsky/AP Images)

یوکرین کی جوہری تنصیبات پر حملے صرف چرنوبل تک ہی محدود نہیں رہے۔ اس پلانٹ کی سکیورٹی کے لیے نصب کیمروں کی ویڈیوز کے مطابق 3 مارچ کو پوٹن کی فوج نے بجلی کے زافوریژا جوہری پلانٹ کو بھی نشانہ بنایا، اس پر فائرنگ کی اور مقامی علاقے کے آگ بجھانے والے محکمے عملے کو آگ بھجانے کے لیے نہیں جانے دیا۔

یوکرین کے جوہری معاملات کے ضابطہ کاری کے ڈائریکٹوریٹ کے مطابق گولہ باری کے نتیجے میں استعمال شدہ ایندھن کے ذخیرے اور اور اس کے قریب واقع ایک اور جوہری تنصیب کو نقصان پہنچایا۔ یوکرین کا عملہ جو کریملن کے حملے کے وقت کام کر رہا تھا وہ 24 گھنٹے سے زیادہ اپنی پوسٹوں پر موجود رہا۔ اِن میں سے بعض کو تناؤ کے لیے طبی علاج کی ضرورت بھی پڑی۔

فکر مند سائنس دانوں کی یونین کے ایڈون لائمن نے این پی آر کو بتایا کہ روس کے زافوریژا پلانٹ پر حملے سے اُسی طرح کے نقصانات کے خطرات پیدا ہو گئے تھے جن کا جاپان کو اس کے فوکوشیما ڈائیچی نیوکلیئر پاور پلانٹ میں 2011 کی تباہی کے بعد سامنا کرنا پڑا تھا۔

لائمن نے کہا، “جوہری پلانٹ کو اس قسم کے حملے کا نشانہ بنانا مکمل طور پر ایک پاگل پن ہے۔”