چھوٹی چھوٹی امدادی رقومات سے امریکی فن کاروں اور طلبا کی حوصلہ افزائی

فن کے لیے وقف قومی ادارے، ‘نیشنل انڈؤمنٹ فار آرٹس’ (این ای اے) نے متنوع ثقافتی تنظیموں کو 84 ملین ڈالر کی مجموعی رقم بطور امداد دی ہے تاکہ امریکہ بھر میں تخلیقیت کی رنگ برنگی چادر کا تانا بانا بُنا سکے۔

جن مقاصد کے لیے جون میں اعلان کردہ امدادی رقومات دی گئی ہیں اُن میں یہ تقریبات شامل ہیں: السیریٹو، کیلی فورنیا کے ایک ورچوئل میوزیم میں امریکی موسیقی کی جڑوں سے متعلق نمائش؛ ورجینیا میں نوجوان فنکاروں کے لیے آواز کے اتار چڑہاؤ کی تربیت؛ خواتین کے حق رائے دہی کی 100 ویں سالگرہ کی خوشی میں ٹوپیکا، کینسس میں ہونے والا ایک میلہ؛ ڈاموئن، آئیووا میں دریا کے ساتھ ساتھ عوامی فن پاروں کی تنصیب؛ اور کیلی فورنیا کی اورنج کاؤنٹی کے لاطینی ممالک کے فنکاروں کی فنی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا میلہ۔

اِن رقومات کا اعلان مارچ میں اُن دنوں میں کیا گیا جب ملک میں کورونا وائرس کی وبا زور پکڑ رہی تھی۔ این ای اے نے کچھ صورتوں میں پروگراموں کو ورچوئل شکل میں بحال کرنے اور دیگر صورتوں میں تنظیموں کے ساتھ مل کر معاشرتی دوری کے اصول کے سامنے آنے تک پروگرام ملتوی کرنے پر کام کیا۔

این ای اے ایک آزاد وفاقی ادارہ ہے۔ اس کی چیئرمین، مریم این کارٹر کہتی ہیں کہ فن مشکل وقت میں عام زندگی گزارنے میں قوم کی مدد کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، “امداد کی شکل میں دی جانے والی یہ رقومات امریکہ کے طول و عرض میں فن کی مسلسل تخلیقیت اور برتری اور اُس قومی بحران کے ایام میں فنی تنظیموں کی ذہانت کا مظہر ہیں جب کئی ماہ سے اِن تنظیموں کے دروازوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔

پنسل سے کاپی پر لکھنے والا ہاتھ (© Gregory Rec/Portland Press Herald/Getty Images)
پورٹ لینڈ، مین میں “دا ٹیلنگ روم” میں ایک طالب علم کہانی لکھ رہا ہے۔ (© Gregory Rec/Portland Press Herald/Getty Images)

یہ رقومات 75 ملین ڈالر کی اُس رقم کے علاوہ ہیں جس کا اعلان ‘ کورونا وائرس کے لیے مدد، امدادی سامان اور معاشی سلامتی کے قانون’ کے تحت 30 جون کو کیا جائے گا۔

ریاست ایلانائے کی “راک فورڈ ایریا آرٹس کونسل” کی ڈائریکٹر میری میکنامارا برنسٹین نے بتایا کہ نئے کورونا وائرس نے اُنہیں اپنے پروگرام کو ازسرنو ترتیب دینے پر مجبور کردیا ہے۔ عام طور پر این ای اے سے ملنے والی امداد سے (جو اس برس 25,000 ڈالر ہے) 250 بچوں کے لیے فنون لطیفہ کے ایک تفصیلی پروگرام پر آنے والے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ بچے مقامی پیشہ ورانہ فنکاروں کے ساتھ قریبی رابطے کی وجہ سے کافی کچھ سیکھتے ہیں۔ اس برس سماجی فاصلے کی وجہ سے کیے جانے والے اقدامات کی بنا پر بچوں کی تعداد کم ہو گی اور چھوٹے چھوٹے گروپ بنانے پڑیں گے۔

راکفورڈ کے طلبا عورتوں کو ووٹ کا حق ملنے کی سوویں سالگرہ کے موقع پر پچی کاری کے ایک آرٹست کی ایک مجسمے کی تیاری میں مدد کریں گے، آرٹ کالج کی ایک کھلی جگہ پر (جہاں عام دنوں میں پھول اگائے جاتے ہیں) پر واقع ایک دیوار پر، اور ایک مقامی سڑک کے کنارے دیوار پر تصاویر بنائیں گے۔

اس پروگرام کے تحت خطرات سے دوچار بچوں کو وہ مواقعے میسر آتے ہیں جن کے لیے اُن کے امیر ساتھی کلاسوں یا سمر کیمپوں کے لیے بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں۔ برنسٹین نے کہا، “اُن بچوں کی زندگیوں کا یہ ایک انقلابی موقع ہوتا ہے۔”

این ای اے سب سے زیادہ امداد امریکی شعرا کی اکیڈمی کو اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کو دے گا۔ اکیڈمی کو شاعری کے فروغ کے لیے 75,000 ڈالر اور فاؤنڈیشن کو ادبی مطالعے، بحث مباحثے اور طلبا کے کتابوں کے کلبوں کے لیے 70,000 ڈالر دیئے جائیں گے۔

آرٹس کے مقامی اداروں کا کہنا ہے کہ اُن کی چھوٹی چھوٹی امدادی رقومات کی اہمیت بھی کسی سے کم نہیں ہوتی۔ این ای اے کی منظوری کی مہر لگ جانے کے بعد دیگر جگہوں سے مالی امداد حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ (امریکی فنی تنظیموں کا زیادہ تر انحصار تجارتی اداروں، بشریاتی اور انفرادی عطیات پر ہوتا ہے۔)

سیلین کوُن پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے بچوں کو لکھنے کی تعلیم دینے والی تنظیم، ‘ دا ٹیلنگ روم’ کی ڈائریکٹر ہیں۔ کوُن کے مطابق اس منظوری کی وجہ سے”ہم جن نوجوان ادیبوں کے ساتھ کام کرتے ہیں … اُن کا دائرہ (ریاست) مین سے نکل کر (دوسری ریاستوں) تک پھیل جاتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ طلبا کو احساس ہونے لگتا ہے کہ اُن کی کہانیاں سنائے جانے کے قابل ہیں” جس سے عام طور پر انہیں ترقی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس پروگرام میں شرکت کرنے والے طلباء کی نوے فیصد تعداد تعلیم کے لیے کالجوں میں جاتی ہے۔

کتابوں کی دکان میں کھڑی عورت طلبا سے باتیں کر رہی ہے (© Brianna Soukup/Portland Press Herald/Getty Images)
نومبر میں کتابوں کی دکان کی مالکہ، ایملی روسو ‘دا ٹیلنگ روم’ میں طلبا کو اشاعتی کاروبار کے بارے میں بتا رہی ہیں۔ (© Brianna Soukup/Portland Press Herald/Getty Images)

‘ دا ٹیلنگ روم’ کو اس کے نوجوان مصنفین اور لیڈر پروگرام کے لیے این ای اے کی طرف سے 15,000 ڈالر دیئے گئے تھے۔ اس پروگرام کے تحت ثانوی سکول کے طلبا ہر سال ایک کتاب مرتب کرتے ہیں اور ایک فنی پروگرام پیش کرتے ہیں۔ (اس سال کا پروگرام آن لائن ہوگا۔)

سی ایٹل کے ‘دا ہیوگو ہاؤس’ کو اس کے لکھنے کے پروگرام کے لیے 35,000 ڈالر دیئے جائیں گے۔ اس پروگرام میں طلبا اور بے گھر افراد کے ساتھ ساتھ نشے سے چھٹکارا پانے والوں کے لیے کلاسیں بھی شامل ہوں گیں۔ تحریر کا یہ مرکز ہر برس تخلیقی تحریر کی 300 کلاسوں کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مرکز مشاعروں کی تقریبات اور ‘سٹیج فرائٹ اوپن مائیک’ کے نام سے طلبا کے لیے اپنی تحریریں پڑھنے کی ایک تقریب کا اہتمام بھی کرتا ہے۔

اس ادارے کا ہم نام ہیوگو ایک شاعر تھا جو سی ایٹل میں کٹھن حالات میں بڑا ہوا۔ ہیوگو ہاؤس کی ڈائریکٹر، ٹری سوینسن کہتی ہیں، “آپ کو کبھی بھی یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اگلے عظیم مصنف کا تعلق کہاں سے ہوگا۔ ہم یہ یقینی بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں کہ لکھنے کے اس پروگرام سے اُن لوگوں کی مدد کی جائے جو شاید کبھی بھی یونیورسٹی نہ جا پائیں۔”