نیشنل ویمن ہال آف فیم (نامور عورتوں کے قومی ہال) نے بہنوں کی اپنی منفرد برادری میں اُن چھ سیاہ فام خواتین کو شامل کیا ہے جو تاریخی تبدیلیاں لے کر آئیں۔ اُن کو یہ اعزاز امریکی عورتوں کے حقوق کی تحریک کی جائے پیدائش یعنی سینیکا فالز، نیویارک میں انجام دی جانے والی اُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا گیا ہے۔
اس ہال میں شمولیت کے نئے ورچوئل سلسلے میں کم نمائندگی والی عورتوں کی کامیابیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ایسا اُن پسماندہ عورتوں کو اُن کی وفات کے بعد خراج تحسین پیش کرکے کیا جا رہا ہے جو اپنی زندگیوں کے دوران نظرانداز ہوئیں یا 1969ء میں ہال آف فیم کے قیام سے قبل یا تو انتقال کر گئیں یا انہیں ہال آف فیم میں شامل نہ کیا جاسکا۔
سال 2020 میں مندرجہ ذیل عورتوں کو ہال آف فیم میں شامل کیا گیا:-
ہینریئٹا لیکس ( 1920 تا 1951)

پولیو ویکسین، کیمو تھیراپی، پارکنسن کے مرض پر کی جانے والی تحقیق اور بہت ساری دیگر بیماریوں کے علاج میں ہینریئٹا لیکس کے لافانی خلیوں کی وجہ سے اُن کا ورثہ آج تک زندہ ہے۔ عشروں میں جہاں اُن کے خلیوں کے استعمال سے طب کے میدان میں پیشرفت ہوئی وہاں طبی اخلاقیات کے بارے میں بھی سوالات نے جنم لیا کیونکہ اُن کے علم یا مرضی کے بغیر اُن کے خلیے حاصل کیے گئے تھے۔ (یاد رہے کہ اِن سوالات کے نتیجے میں نئی احتیاطی تدابیر وضح کی جا چکی ہیں۔) جان ہاپکنز ہسپتال کے مطابق جب ہسپتال مین اُن کا رحم کے نچلے حصے کے کینسر کا علاج ہو رہا تھا تو اس دوران اُن کے خلیے ایک تجربہ گاہ میں لے جائے گئے اور اُن کی افزائش کی گئی۔
اگرچہ زیادہ تر سرطانی خلیے چند دنوں کے اندر مر جاتے ہیں، تاہم سائنس دانوں نے دیکھا کہ لیکس کے خلیوں کی تعداد 24 گھنٹوں میں دگنی ہوگئی۔ لیکس کا رحم کے نچلے حصے کے کینسر کی بیماری سے 1951ء میں انتقال ہوگیا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک آسانی سے تیار کیے جا سکنے والے ‘ ہی لا ‘ خلیوں کو 76,000 سے زائد مطالعاتی جائزوں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔
میری چرچ ٹیریل ( 1863 تا 1954)

اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں میری چرچ ٹیریل شہری حقوق کے لیے سرگرم عمل رہنے کے ساتھ ساتھ سیاہ فام عورتوں کے انتخابات میں حق راہے دہی کی حامی بھی رہیں۔ انہوں نے ہجوم کی طرف سے کسی کے ہلاک کیے جانے، تعلیمی اصلاحات اور حق تلفی سے نمٹنے کے لیے سیاہ فام عورتوں کی ایک تنطیم کا آغاز کیا۔ انہوں نےA Colored Woman in a White World (سفید دنیا میں ایک رنگدار عورت) کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح حیات سمیت سیاہ فام عورتوں کی با اختیاری سے متعلق وسیع پیمانے پر لکھا۔ 80 برس کی عمر میں انہوں نے رنگ و نسل کی بنیادوں پر علیحدہ علیحدہ چلائے جانے والے ریستورانوں اور سنیما گھروں کے سامنے کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا۔
اس دوران اس معلمہ کو سیاہ فام خاتون کی حیثیت سے کئی ایک نئے اعزاز حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ پہلی سیاہ فام خاتون تھیں جس نے اوبرلن کالج سے کلاسیکی مضامین میں کالج ڈگری حآصل کی، کسی بڑے شہر (واشنگٹن) کے سکول بورڈ میں تعینات ہوئیں، اور رنگ دار عورتوں کی قومی ایسوسی ایشن کی صدر بنیں۔
باربرا روز جونز پاول (1935 تا 1991)

بارہ 15 سال کی عمر میں باربرا روز جونز پاول نے سکول سے اُس واک آؤٹ کی قیادت کی جس نے امریکہ کی نسلی علیحدگی کی تحریک کی چنگاری کو شعلے میں بدلنے میں مدد کی۔ محض 15 برس کی عمر میں انہوں نے فارم وِل، ورجینیا میں اپنے پرہجوم، نسلی بنیادوں پر علیحدہ چلائے جانے والے ثانوی سکول کی حالت پر احتجاج کرنے کے لیے اپنی ہم جماعتوں کی 1951ء میں کی جانے والی دو ہفتے طویل ہڑتال میں قیادت کی۔ رابرٹ روسا موٹن ہائی سکول میں سامان ٹوٹا پھوٹا تھا۔ سکول میں نہ تو سائنسی تجربہ گاہ تھی اور نہ ہی جِم یعنی وزشی ہال تھا۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی کے لیے پائپ بھی نصب نہ تھے۔
اریتھا فرینکلن (1942 تا 2018)

اریتھا فرینکلن، بالخصوص “رسپیکٹ” (احترام) نامی گانے کی وجہ سے “روح کی ملکہ” کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ شہری اور عورتوں کے حقوق کے لیے یہ ایک زور دار نغمہ ہے۔ فرینکلن نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اِنہی نصب العینوں کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس گلوکارہ، نغمہ نگار، پیانو نواز اور اداکارہ نے شہری حقوق کے گروپوں کو پیسوں کے عطیات دیئے بلکہ ان گروپوں کے اہل کاروں کی تنخواہوں کے لیے بھی پیسے دیئے اور اُن کے فائدے کے لیے ہونے والی بہت سی تقریبات اور احتجاجی مظاہروں میں اپنے فن کا مظآہرہ کیا۔ 16 برس کی عمر میں فرینکلن نے اپنے ساتھی گلوکار اور فعال رکن، ہیری بیلا فونٹی کے ساتھ مل کر اپنے گانوں کے ذریعے شہری حقوق کی تحریک کی ترویج کے لیے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے ہمراہ ملک کے دورے بھی کیے۔
فرینکلن، راک اینڈ رول ہال آف فیم (موسیقی اور گانوں پر رقص کے شہرت کے ہال) میں شامل ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔ فرینکلن نے چھ دہائیوں تک گانے ریکارڈ کروائے اور موسیقی کے پروگرام کیے۔ انہیں حاصل ہونے والے دیگر اعزازات میں، 1991ء کا گریمی لیجنڈ ایوارڈ اور 1994ء کا گریمی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ شامل ہیں۔ اس افسانوی گلوکارہ کا ورثہ عوام میں، جن میں جینیفر ہڈسن اور ڈولی پارٹن بھی شامل ہیں، قائم و دائم ہے۔
باربرا ہلری (1931 تا 2019)

جب ریٹائر نرس، باربرا ہلری کو علم ہوا کہ آج تک کوئی سیاہ فام عورت قطب شمالی پر نہیں گئی تو انہوں نے ایسا کرنے والی پہلی خاتوں بننے کی ٹھان لی اور 75 برس کی عمر میں یہ کامیابی حاصل کی۔ اس طرح وہ قطب شمالی پر قدم رکھنے والی معمر ترین خاتون بن گئیں۔ چند برس بعد 79 برس کی عمر میں وہ قطب جنوبی پر پہنچنے والی اولین سیاہ فام خاتون بھی بنیں۔ وہ نئے ریکارڈ قائم کرنے کی عادی تھیں۔ انہوں نے کثیرالنسلی قارئین کے لیے “دا پننسولا میگزین” کے نام سے ایک نئے غیرمنفعتی جریدے کا اجرا کیا اور اس کی ادارت کی۔ نیویارک کے علاقے میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا جریدہ تھا۔
ٹونی موریسن (1931 تا 2019)

ٹونی موریسن کا ادبی مجموعہ سیاہ فاموں کی آوازوں اور تجربات میں جان پیدا کرتا ہے۔ 1967ء میں موریسن نے رینڈم ہاؤس میں شمولیت اختیار کی اور افسانوں کے شعبے کی اولین سیاہ فام سینئر ایڈیٹر بنیں۔ رینڈم ہاؤس میں انہوں نے سیاہ فاموں کے تخلیق کردہ ادب کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں مدد کی اور ایسے افسانے لکھنے شروع کیے جن میں سیاہ فام عورتوں کے تجربات کی روشنی میں زندگی کو دیکھا جاتا ہے۔
اُن کا پہلا ناول، “دا بلیوسٹ آئیز” (نیلی ترین آنکھیں) ایسی سیاہ فام عورتوں سے متعلق ایک مختصر کہانی سے متاثر ہو کر لکھا گیا جن کی خواہش تھی کہ اُن کی آنکھیں نیلی ہوں۔ ناقدین سے داد پانے والے ناول “سونگ آف سولومن” (سلیمان کا گانا) کے بعد انہیں قومی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ اس ناول پر انہیں “نیشنل بک کرٹکس سرکل ایوارڈ” ملا۔ اس مضمون نگار اور پرنسٹن یونیورسٹی کی پروفیسر کو بعد میں بھی اعزازات سے نوازا گیا جن میں 1998ء کے ناول “بیلوڈ” کے لیے پلٹزر پرائز، 1993ء کا ادب کا نوبیل انعام اور 2000ء کا نیشنل ہیومنٹیز میڈل (انسانیات کا قومی تمغہ) شامل ہیں۔