فرنٹ رائل، ورجینیا میں سمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ کے زیر انتظام ایک ادارے میں صرف ایک ہفتے کے دوران چیتے کے بچوں کے دو غول پیدا ہوئے۔

ہیپی نام کی ایک مادہ چیتے نے 23 مارچ کو پانچ بچے دیئے جبکہ مِٹی نام کی ایک اور مادہ چیتے نے 28 مارچ کو سات پچے جنے جن میں سے پانچ زندہ بچے۔

یہ دونوں غول، واشنگٹن  سے تقریباً 90 منٹ کی مسافت پر واقع، سمتھ سونین کنزرویشن بائیولوجی انسٹی ٹیوٹ (ایس سی بی آئی) میں پیدا ہوئے۔

باور کیا جاتا ہے کہ دنیا میں جنگلوں میں پائے جانے والے چیتوں کی تعداد تقریباً 7,100 ہے۔ چیتوں کی آبادی میں اضافہ کرنے کی ایک بین الاقوامی کوشش  کے تحت، لگ بھگ 1,800 چیتے انسانی نگرانی میں چار دیواریوں کے اندر پالے جا رہے ہیں۔

 *وڈیو

چیتوں کے جینیاتی مطالعے سے سائنس دانوں کو پتہ چلا ہے کہ تقریباً 10,000 سال پہلے چیتے کی نسل معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی تھی۔ اس کے بعد اگرچہ ان کی آبادی میں اضافہ تو ہوا، مگر ان کے جینیاتی تنوع میں کمی واقع ہوئی۔ چنانچہ اب ماہرین کا مقصد ‘مکس اینڈ میچ’ یعنی مختلف نسلوں کے باہمی ملاپ کے طریقے سے چیتوں کے مزید جوڑے بنا کر ان کے جنیاتی تنوع میں ممکنہ حد تک اضافہ کرنا ہے۔ دوسری طرف جنگلوں میں ایک بار پھر چیتوں کو خطرات کا سامنا ہے۔ اس مرتبہ یہ خطرات، ان کے حیاتیاتی ماحول کے سکڑنے اور غیر قانونی شکار کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔

“صرف ایک ہفتے میں ہم نے ایس سی بی آئی میں  چیتوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ کیا ہے۔” یہ الفاظ ایڈرین  کراسیر کے ہیں جو انسٹی ٹیوٹ کی چیتوں کی ماہرِ حیاتیات اور چیتوں کی نسل کی بقا کے منصوبے کے لیے چڑیا گھروں اور مچھلی گھروں کی ایسوسی ایشن کی مینجر ہیں۔

کراسیر کا کہنا ہے،” چیتے کے ہر بچے کا،  انسانوں کے زیرِ نگران چیتوں کی آبادی کی صحت کو بہتر بنانے میں ایک اہم کردار ہے اور یہ مجموعی طور پر زندگی کی اِس نوع کے لیے امید کی علامت ہیں۔”

چیتے کے بچوں کے یہ دونوں غول، سمتھ سونین کے چیتوں کے تحفظ کے اُس پروگروم کی جاری کامیابیوں کو اُجاگر کرتے ہیں جس نے چیتوں کی آبادی کو از سرِنو بحال کرنے میں ایک اہم  کردار ادا کیا ہے۔ اس ادارے میں 2010ء سے لے کراب تک چیتے کے چھیالیس بچے پیدا ہوچکے ہیں۔

اس تحقیقی ادارے میں موجود ایسے دوسرے جانوروں میں، جن کے معدوم ہوجانے کا خطرہ ہے، سرخ پانڈے، کالے پاؤں والا گلہری نما جانور، فیریٹ اور سیاہی مائل ہلکے کالے رنگ کے تیندوے شامل ہیں۔

* نوٹ: وڈیو انگریزی میں ہے۔