صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ چین کے ساتھ اپنے تجارتی تعلق کو ازسرنو متوازن بنانے کے لیے پرعزم ہے تاکہ مزید منصفانہ اور دوطرفہ تجارت ممکن ہو سکے۔ 22 مارچ کو صدر ٹرمپ نے چین کی جانب سے ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی، لائسنسنگ کے حوالے سے امتیازی پابندیوں، ریاستی حکم پر حساس امریکی ٹیکنالوجی کے حصول اور امریکی تجارتی نیٹ ورکوں کی ہیکنگ سے نمٹنے کے لیے اپنی انتظامیہ کو اقدامات اٹھانے کا حکم جاری کیا۔

چین کی جانب سے امریکی ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی کے جواب میں امریکی تجارتی نمائندے (یوایس ٹی آر) کے دفتر نے عوامی رائے لینے کے لیے چینی درآمدی اشیا کی ایک مجوزہ فہرست شائع کی جن پر 25 فیصد اضافی محصولات عائد کیے جا سکتے ہیں۔ اس مجوزہ فہرست میں ایسی اشیا شامل ہیں جنہیں چین کی صنعتی پالیسیوں سے ناجائز طور سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اس بارے میں حتمی فیصلہ عوامی رائے لینے کے بعد کیا جائے گا۔ ان اشیا کی تجارتی مالیت لگ بھگ 50 ارب ڈالر ہے۔

اس کے جواب میں چین اب تک امریکی برآمدات پر اربوں  ڈالر کے محصولات نافذ کرنے کی دھمکیاں دیتا چلا آ رہا ہے جس سے اُن امریکی کارکنوں، کسانوں اور کاروباری افراد کو مزید نقصان پہنچے گا جو چین کی غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں کے باعث پہلے ہی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ چین کی جانب سے پیدا کردہ ان حالات میں صدر نے 5 اپریل کو ‘یوایس ٹی آر’ کو اس بات کا تعین کرنے کی ہدایت جاری کی کہ آیا 100 ارب ڈالر کے مزید محصولات عائد کرنا مناسب ہو گا یا نہیں۔

امریکی انتظامیہ کے اندازوں کے مطابق چین کی جانب سے ناجائز طور سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے اقدامات سے امریکی معیشت کو کم از کم 50 ارب ڈالر سالانہ کا  نقصان ہوتا ہے۔

صدر کے اس حکمنامے کی بنیاد امریکی تجارتی نمائندے کی جانب سے ‘سیکشن 301’ کے تحت کی جانے والی مکمل چھان بین کے بعد سامنے آنے والے نتائج  پر مبنی ہے۔ انہوں نے اس چھان بین کا حکم اگست 2017 میں دیا تھا۔

سیکشن 301 کی چھان بین کیا ہے؟

1974 کے تجارتی قوانین کے تحت سیکشن 301 امریکی تجارتی نمائندے کو چھان بین اور صدر کی ہدایت پر کسی ملک کے غیرمنصفانہ تجارتی اقدامات کا جواب دینے  کا اختیار دیتی ہے۔ سیکشن 301 کی یہ چھان بین ثبوت کے تفصیلی تجزیوں، عوامی سماعتوں، نجی شعبے کی مشاورتی کمیٹیوں کے ساتھ صلاح مشورے اور علمی ماہرین، تجارتی انجمنوں اور امریکی محنت کشوں کی جانب سے دی گئی معلومات کی روشنی میں کی جاتی ہے۔

صدر ٹرمپ سیکشن 301 کے تحت چھان بین کے نتیجے پر کیسے پہنچے؟

Donald Trump holding up signed document surrounded by people (© Evan Vucci/AP Images)
صدر ٹرمپ چین کی غیرمنصفانہ تجارتی سرگرمیوں پر کاروائی کرنے کے ایک میمورنڈم پر دستخط کر رہے ہیں۔ (© Evan Vucci/AP Images)

امریکہ نے چینی تجارتی پالیسیوں اور اقدامات کے حوالے سے موجودہ مسائل حل کرنے کے لیے کئی طرح کی معاشی بات چیت کے ذریعے 14 برس تک کام کیا۔ مگر چین ٹیکنالوجی کی منتقلی کی کاروائیوں سمیت کوئی بنیادی تبدیلی لانے میں ناکام رہا۔ صدر ٹرمپ نے 14 اگست 2017 کو یہ طے کیا کہ امریکی کاروبار کو چین کے نقصان دہ اقدامات سے بچانے کے لیے فیصلہ کن اقدام اٹھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ 1974 کے تجارتی قانون کی سیکشن 301 کے تحت کی جانے والی چھان بین کے ذریعے ‘یوایس ٹی آر’ کو چین کے غیرمنصفانہ تجارتی اقدامات کے تجزیے اور ان سے نمٹنے کا وسیع اختیار حاصل ہے۔

چین کے تجارتی اقدامات کے حوالے سے سیکشن 301 کی چھان بین کے نتائج کیا تھے؟

اس چھان بین میں چینی حکومت کے ایسے افعال، پالیسیوں اور طریقہائے کار کی نشاندہی ہوئی جو امریکی کاروبار پر غیرمعقول، امتیازی اور غیرمنصفانہ بوجھ ڈالتے ہیں۔ ان میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں:

  • ٹیکنالوجی کے بارے میں چینی اداروں کو معلومات دینے یا انہیں منتقل کرنے کی خاطر، امریکی کمپنیوں کو چینی مارکیٹ تک رسائی دینے سے قبل اُن پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے غیرملکی ملکیت پر پابندیوں کے قانون کا استعمال کرنا۔
  • ٹیکنالوجی کی لائسنسنگ کے ضمن میں امتیازی شرائط کا نفاذ جن سے امریکی کمپنیوں سمیت ٹیکنالوجی کی ملکیت رکھنے والے غیرملکی اداروں کو حق ایجاد کی سند کے حوالے سے بنیادی حقوق سے محروم کر کے چینی وصول کنندگان کو امریکی ٹیکنالوجی کے مالکان کے مقابلے میں غیرمنصفانہ فائدہ پہنچانا۔
  • بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے غیرشفاف سرمایہ کاری اور امریکی کمپنیوں کو خریدنا۔ جیسا کہ چینی حکومت کی مالی معاونت سے چلنے والی کمپنی ‘ایپکس’ نے کمپیوٹر اور پرنٹر بنانے والی امریکی کمپنی ‘لیکس مارک انٹرنیشنل’ کو خریدا۔ اس خریداری سے قبل لیکس مارک حق ایجاد کی 15 اسناد کی خلاف ورزیوں پر کنسورشیم کے خلاف مقدمہ کر چکی تھی۔
  • املاک دانش، تجارتی رازوں یا خفیہ کاروباری معلومات کے حصول کی خاطر امریکی کمپنیوں میں سائبر مداخلت یا اس کی معاونت، جیسا کہ پانچ چینی عسکری  ہیکروں کو امریکی تجارتی نیٹ ورک ہیک کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

کون سی اشیا محصولات سے متاثر ہوں گی؟

25 فیصد محصولات سے ایسی صنعتوں کو ہدف بنایا گیا ہے جن سے چین کی غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔

مجوزہ محصولات کی زد میں آنے والے شعبہ جات میں فضائی اور خلائی صنعت، معلومات اور مواصلات کی ٹیکنالوجی، روبوٹ اور مشینری شامل ہیں۔

22 مارچ کی صدارتی یاد داشت پر دستخط کے موقع پر نائب صدر پینس نے کہا، “امریکہ ناصرف امریکیوں کی نوکریوں کے تحفظ بلکہ امریکی ٹیکنالوجی کی حفاظت کے لیے بھی مخصوص اور مرتکز اقدامات اٹھا رہا ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی ہماری اختراعی معیشت کو آنے والی دہائیوں تک طاقت اور تحرک مہیا کرتی رہے گی۔”