قمری کیلنڈر میں ‘سور کا سال’ منائے جانے کے موقع پر شنجیانگ ویغور خودمختار خطے میں چینی حکام مسلمانوں کو سور کھانے پر مجبور کر رہے ہیں اور ایسا نہ کرنے والوں کو اپنی آزادی سلب کیے جانے کے خدشے کا سامنا ہے۔
بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اسلامی عقیدے کی رو سے سور ”حرام” ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے ناپاک سمجھتے ہیں اور اسے کھانا ممنوع ہے۔
ریڈیو فری ایشیا نے خبر دی ہے کہ چینی حکام گھر گھر جا کر مسلمان مکینوں کو سور کا گوشت دے رہے ہیں اور انہیں نئے سال کی خوشی میں ہونے والی کھانے کی تقریبات میں مدعو کر رہے ہیں جہاں سور کا گوشت پیش کیا جاتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکام کی جانب سے نئے قمری سال کی خوشی میں سور کا گوشت تحفے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ ہن چینی ثقافت کے فروغ اور ویغوروں، قازقوں اور دیگر مسلم اقلیتوں کی نسلی شناختوں اور مذہبی رسومات کو دبانے کی مہم کا حصہ ہے۔
ایک ناممکنہ انتخاب
بہت سے مسلمان نا صرف سور کا گوشت کھانے کو ناپاک عمل سمجھتے ہیں بلکہ بہت سے چینی مسلمان اس انداز میں قمری سال مناتے بھی نہیں جس طرح بہت سے ہن چینی (چین کا غالب نسلی گروہ) مناتے ہیں۔ اس کے بجائے بہت سے مسلمان اسلامی کیلنڈر کے مطابق چلتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اگر مسلمان باشندے حکام کی جانب سے پیش کردہ سور کا گوشت کھانے سے انکار کریں تو انہیں ”انتہاپسند” قرار دے کر حراستی کیمپوں میں بھیجنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
اس طرح حکام چینی قومی تہوار پر مسلمانوں کو سور کا گوشت (جو کہ چینی کھانے کا اہم جزو ہے) پیش کر کے بعض مسلمانوں کو ممکنہ طور پر ان کے مذہب اور آزادی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
جاری ثقافتی جبر

ویغور خودمختار خطے میں موجود کیمپوں میں چینی حکام قیدیوں کو اسلام ترک کرنے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ قیدیوں سے کمیونسٹ نعرے لگانے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے ستائشی گیت گانے کو کہا جاتا ہے۔ یہ اسباق فوری طور پر نہ یاد کرنے والوں کو مار پیٹ اور خوراک سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت چین نے کم از کم دس لاکھ ویغوروں، قازقوں اور دیگر مسلم اقلیتی گروہوں کے ارکان کو حراستی کیمپوں میں قید کر رکھا ہے۔
چین کا دعویٰ ہے کہ حراستی کیمپوں کا مقصد ”تعلیم نو” ہے اور یہ کیمپ صرف دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے قائم کیے گئے ہیں تاہم ان کیمپوں سے بچ نکلنے والوں کی فراہم کردہ اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔
چین کی بیان کردہ ”انسداد دہشت گردی” کی منطق مسلمانوں اور نسلی اقلیتی گروہوں کے اُن ارکان سے بدسلوکی کا محض ایک بہانہ ہے جو اپنے عقیدے پر عمل پیرا ہیں یا اپنی ثقافتی روایات سے وابستہ ہیں۔
حال ہی میں دنیا کے متعدد ممالک نے ویغور اور دیگر مسلمان اقلیتی گروہوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ترکی کی خارجہ امور کی وزارت نے اسے ”شنجیانگ ویغور خودمختار خطے میں ویغور ترکوں اور دیگر مسلمان گروہوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی” قرار دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ووٹروں کی اقدار سے متعلق 13ویں سالانہ کانفرنس کے موقع پر کہا، ”ویغور باشندوں کو ان کی مرضی کے خلاف نام نہاد تعلیمِ نو کیمپوں میں رکھا گیا ہے جہاں انہیں شدید سیاسی تطہیر اور خوفناک طرح کی دیگر بدسلوکیاں جھیلنا پڑتی ہیں۔ ان کے مذہبی اعتقادات کو ختم کیا جا رہا ہے۔”