چینی حکومت کے ہیکروں اور چوروں کی عالمگیر پہنچ

عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کے املاکِ دانش کے ہیکر اور چور دنیا  بھر کے ممالک پر حملہ آور ہو  رہے ہیں۔

پی آر سی کے فوجی اور اقتصادی ترقی کے مقاصد کے فروغ کے لیے کام کرنے والے چور جرمنی کی ایک بہت بڑی دوا ساز کمپنی کو، تائیوان میں سیمی کنڈکٹر بنانے والوں کو اور امریکہ سے جنوبی کوریا اور آسٹریلیا تک پھیلے ممالک میں جدید ٹکنالوجیاں تیار کرنے والوں کو نشانہ بنا چکے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 9 جولائی کی ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ پی آر سی کے ٹکنالوجی کے چوروں سے در پیش خطرے سے “دنیا بھر کے وہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں جنہوں نے چیزیں ایجاد کرنے اور بنانے اور خوشحال ہونے کے لیے دن رات محنت کی۔”

انہوں نے مزید کہا، “املاکِ دانش کی چوری کا خطرہ حیران کن حد تک حقیقی ہے۔”

یورپی یونین نے حال ہی میں  پی آر سی کے شہریوں اور “ہیٹائی ٹکنالوجی ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹد” پر پابندیا لگائیں ہیں۔ یہ سب چین میں واقع ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ اِن سب کی “بدنیتی پر مبنی وہ سائبر سرگرمیاں ہیں جن کا مقصد (یورپی) یونین کی سالمیت، سلامتی اور اقتصادی “مسابقت” کو نقصان پہنچانا ہے۔

یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزپ بوریل نے پہلی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے 30 جولائی کی ایک ٹویٹ میں کہا، “سائبر خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بتدریج واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشروں کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہم اس طرح کا طرز عمل برداشت نہیں کریں گے۔”

پی آر سی کے مختلف طریقہائے کار ہیں۔ اِن طریقوں کا تعلق ہیکروں کو استعمال کرنے سے لے کر شہری محققین کے بھیس میں فوجی افسروں کو بیرونی ممالک میں بھیجنے، اور چینی سائنس دانوں یا دیگر ممالک کے سائنس دانوں کو ساتھ ملانے تک سے ہے۔

اس کے اہداف اس سے کہیں زیادہ متنوع ہیں۔

امریکی سرکاری وکیل یہ الزام لگاتے ہیں کہ پی آر سی کی ملکی سلامتی کی وزارت کے لیے کام کرنے والے  دو ہیکروں نے آسٹریلیا، بلجیئم اور جاپان سمیت 11 ممالک میں اعلٰی ٹکنالوجی کی صنعتوں کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک چلتا رہا اور اس میں کووڈ-19 کی عالمی وباء کے لیے ویکسین تیار کرنے اور علاج ڈھونڈنے  والی کمپنیوں سمیت ٹکنالوجی کے کئی ایک شعبوں کو نشانہ بنایا گیا۔

وائرڈ نامی ایک رسالے کے مطابق، اگست میں سائبر سکیورٹی کے محققین نے تائیوان میں کئی ایک مائیکرو چِپ بنانے والوں کو نشانہ بنائے جانے کی ایک سازش کو بے نقاب کیا۔ پی آر سی کے “سرکار میں موجود” ہیکروں نے یہ سائبر حملہ کیا جس کا ” مقصد جتنی ممکن ہو سکے اتنی املاکِ دانش چرانا تھا۔”

2018ء میں جرمنی کی دوا ساز کمپنی، بیئر کو اپنے کمپیوٹر نیٹ ورکوں میں نقصان پہنچانے والے سافٹ ویئروں کا پتہ چلا۔ روئٹرز کے مطابق سکیورٹی کے ماہرین کو یہ حملہ عوامی جمہوریہ چین میں واقع  “وِکِڈ پانڈہ” نامی  گروپ کے حملوں سے مطابقت رکھتا ہوا دکھائی دیا۔

کینبرا میں “آسٹریلین سٹرٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ” (اے ایس پی آئی) کے نام سے قائم تھنک ٹینک کے مطابق، چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے درجنوں سائنس دانوں نے آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک کا سفر کرنے کی خاطر اور آواز سے کئی گنا تیز رفتار میزائلوں اور جہاز رانی کی ٹکنالوجیوں جیسے شعبوں میں تحقیق کرنے کے لیے فوج سے اپنے تعلق کو خفیہ رکھا۔

اے ایس اپی آئی نے اکتوبر 2018 کی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ چینی فوج 2008ء کے بعد سے، امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جرمنی سمیت دوسرے ممالک میں 2,500 سائنس دان بھجوا چکی ہے۔

اے ایس پی آئی نے بتایا، “بیرونی ممالک جانے والوں میں سے بعض نے اپنا فوجی تعلق چھپانے کے لیے جان بوجھ  کر اور چیزوں کا سہارا لیا اور اپنا تعلق ایسے تعلیمی اداروں سے ظاہر کیا جن کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔”