
عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) جبری مشقت کے اپنے استعمال کو توسیع دے رہا ہے۔ اس سے دنیا کے ممالک کے انجانے میں ایسی مصنوعات درآمد کرنے کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے جنہیں ان لوگوں نے بنایا ہوتا ہے جن سے جبر یا ڈرا دھمکا کر کام لیا جاتا ہے۔
محکمہ خارجہ کی بچوں سے لی جانے والی مشقت اور جبری مشقت سے بنوائی جانے والی اشیا کی 2020ء کی فہرست کے مطابق، ہو سکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زائد ویغور اور دیگر نسلوں کے اقلیتی گروہوں کے افراد جبری حالات میں کام کر رہے ہوں۔
امریکی محکمہ محنت کا کہنا ہے کہ پی آر سی میں جبری مشقت سے بنوائی جانے والی پانچ مزید اشیا کا بھی پتہ چلا ہے۔ اس طرح جبری مشقت کے تحت تیار کروائی جانے والی اشیا کی تعداد اب 17 ہوگئی ہے جو کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
وزیر محنت، یوجین سکلیا نے 30 ستمبر کو ایک بیان میں کہا، “جبری مشقت اور بدسلوکی سے عبارت بچوں سے لی جانے والی مشقت غیرانسانی (فعل) ہیں، (اور یہ) زندگیوں اور کنبوں کو برباد کر رہے ہیں۔ آج کی فہرست دنیا کی دوسری بڑی معیشت یعنی چین کے اِن استحصالی طریقوں کی سرپرستی کرنے میں پریشان کن کردار کو آشکار کرتی ہے۔”
محکمہ محنت کمپنیوں سے اس بات کی سفارش کرتا ہے کہ وہ اپنے رسدی سلسلوں کا جائزہ لیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اُن کی مصنوعات کا انحصار پی آر سی کی جبری مشقت پر نہ ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، “یہ زیادتیاں سنگین ہیں اور انہیں عمدہ طریقے سے ایک دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ اِن زیادتیوں کے ہوتے ہوئے یہ بات اہم ہوجاتی ہے کہ دنیا اِن خلاف ورزیوں میں ملی بھگت کے خلاف معقول اقدامات سمیت، شنجیانگ سے جڑی مشقت اور اشیا کے بارے میں چوکنی ہو جائے۔”

2017ء سے اب تک چینی کمیونسٹ پارٹی دس لاکھ سے زائد ویغوروں اور نسلی اقلیت کے دیگر گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، شنجیانگ میں حراستی کیمپوں میں بند کر چکی ہے۔ بعض صورتوں میں ویغوروں سے کیمپوں کے اندر زبردستی کام کرایا جاتا ہے یا انہیں عوامی جمہوریہ چین میں کسی اور مقام پر کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ حراست میں رکھے جانے والے افراد کو کیمپوں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملنے کی یا تو بالکل اجازت نہیں ہوتی یا محدود اجازت ہوتی ہے۔ کیمپوں میں تشدد کے واقعات کی اطلاعات بھی ملتی رہتی ہیں۔
محکمہ محنت کے محنت کے بین الاقوامی امور کے بیورو نے پی آر سی کو 2009ء سے جبری مشقت سے کام لینے والے ممالک میں شامل کر رکھا ہے۔ مگر سال 2020 کی فہرست میں جبری مشقت کے تحت بنائی جانے والی جو پانچ اشیا شامل کی جا رہی ہیں اُن میں ٹیکسٹائل، دھاگہ یا سوت، دستانے، ٹماٹر سے تیار کی جانے والی اشیا اور بالوں کی مصنوعات شامل ہیں۔
دیگر اشیا جن کی تیاری میں جبری مشقت سے کام لیا جاتا ہے اُن میں مصنوعی پھول، کھلونے، الیکٹرانکس، جوتے، آتش بازی، ماہی گیری، اینٹیں اور کرسمس کی سجاوٹی اشیا شامل ہیں۔
امریکہ سی سی پی کے جبری مشقت کے طریقوں کو روکنے کے لیے لاتعداد اقدامات اٹھا چکا ہے۔ جولائی میں امریکہ کے کسٹمز اور سرحدی تحفظ کے افسران نے شنجیانگ سے آنے والی انسانی بالوں سے تیار کی گئی 13 ٹن وزنی مصنوعات کو اپنے قبضے میں لیا۔ اِن کے بارے میں شک ہے کہ یہ جبری مشقت کے تحت تیار کروائی گئی ہیں۔
شنجیانگ میں نسلی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے سلسلے میں جولائی میں، امریکی محکمہ خزانہ نے شنجیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کارپوریشن پر پابندی لگائی۔ یہ کارپوریشن ایک نیم فوجی اور کاروباری تنظیم ہے جو سی سی پی کو جوابدہ ہوتی ہے۔
محکمہ خزانہ نے شنجیانگ میں پارٹی کے سیکرٹری، چن کوانگو پر بھی پابندیاں لگائی ہیں۔ چن کوانگ نے سیاسی تطہیر، جبری مشقت اور تشدد کے لیے بدنام اجتماعی حراستی کیمپوں کی تعمیر میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔
جولائی میں محکمہ خارجہ نے چن اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے دیگر دو اعلٰی عہدیداروں کو بھی شنجیانگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا جس کے نتیجے میں وہ اور اُن کے خاندان کے قریبی افراد امریکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔
امریکی حکومت نے خطے میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے “شنجیانگ سپلائی چین بزنس ایڈوائزری” (شنجیانگ رسدی سلسلے سے متعلق ایک تجارتی ہدایت نامہ) بھی جاری کیا جس میں شنجیانگ میں واقع کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرنے کی تنبیہہ کی گئی ہے۔