یہ کہانی عام ہوتی جا رہی ہے: بہت سی صلاحتیوں کا حامل ایک ترقی پذیر ملک کسی زبردست قسم کے ترقیاتی ڈہانچے کے پراجیکٹ کا اعلان کرتا ہے۔ اس پراجیکٹ کے لیے پیسہ آسان دکھائی دینے والے قرض کی صورت میں آتا ہے۔ اس قرض کی تفصیل واضح نہیں ہوتی مگر یہ ایک بڑی رقم ہوتی ہے اور سیاست دان اور قرض دینے والے دونوں یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اس پراجیکٹ میں “سب کی جیت ہوگی۔”

جوش و خروش کی ابتدائی لہر کے بعد بعض لوگ سوال پوچھنا شروع کرتے ہیں: جیسے قرضے کی شرائط کیا ہیں؟ اگر ترقی پذیر ملک وقت پر قرض ادا نہ کر پایا تو کیا ہوگا؟ مقامی افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کی بجائے پراجیکٹ پر کام کرنے کے لیےغیرملکی مزدوروں کو کیوں لایا جا رہا ہے؟
انتہائی آسان قرضوں اور قرض کے جال میں پھنسنے کے نتائج پر ملکوں کی آنکھیں کھلنے لگی ہیں۔ ایسی صورت حال سے فائد اٹھاتے ہوئے قرض دینے والا ملک تزویراتی اہمیت کے حامل اثاثہ جات اور بندرگاہوں یا سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے قرض کو استعمال کرتا ہے۔ سری لنکا کو جب قرض کی ادائیگی کی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے ایک کلیدی بندرگاہ چین کو 99 سال کے پٹے پر دینے کا انتخاب کیا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی راہ تھی ہی نہیں۔
کیونکہ لوگوں کو سستے قرضوں سے جڑے مسائل کا احساس ہونے لگا ہے، اس لیے افریقہ اور ایشیا کے ممالک اپنے ہاں بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت کی جانے والی سرمایہ کاریوں پر از سرِ نو غور کر رہے ہیں۔
غیرملکی امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکہ، قرضوں کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کی بجائے طویل مدتی شراکت کاریاں قائم کرنے کے لیے دنیا کے ملکوں اور مقامی آبادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اِن مسائل سے بچتا ہے۔