“پہل کاری۔” یہی وہ نام ہے جو چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے مقرر کیے جانے والے شنجیانگ صوبے کے گورنر نے ویغوروں کے تعلیم نو کے کیمپوں کو دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ان کیمپوں کو “گھناؤنا” کہتے ہیں۔

چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی نے دس لاکھ سے زائد ویغوروں، نسلی قازقوں اور دیگر مسلمان اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو کیمپوں میں زیرحراست رکھا ہوا ہے۔ یہ حراستیں مذہبی اور ثقافتی شناختوں کو مٹانے کی ایک بہت بڑی مہم کا حصہ ہیں۔

گو کہ یہ حراستیں بین الاقوامی شور شرابے کا باعث بنی ہوئی ہیں، مگر پارٹی کی طرف سے تعینات کیے جانے والے شنجیانگ کے گورنر، شہرت ذاکر کی رائے مختلف ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ذاکر نے یہ شیخی مارتے ہوئے کیمپوں کو دستکاری کے “پہل کار” تربیتی مراکز سے تشبیہہ دی کہ [ان کیمپوں کے] “گریجوایٹوں” کی —  جنہوں نے ممکن ہے تشدد برداشت کیا ہو —  ملازمتیں حاصل کرنے کی شرح 90 فیصد ہے۔ ذاکر نے یہ بھی کہا کہ حراست میں لیے گئے زیادہ تر لوگ کیمپوں سے جا چکے ہیں مگر اُن کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

اے پی کو ایک نظربند شخص نے بتایا کہ [زیرحراست افراد کو] گھر سے دور فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے ایسی ملازمتوں پر مجبور کیا جاتا ہے جن کے معاہدے سالوں پر پھیلے ہوتے ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی کے اہل کار کا مذہبی زیادتیوں کو دستکاری کی تربیت  قرار دینا ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وزیر خارجہ پومپیو نے کہا ہے کہ کیمپ انسانی حقوق کی تاریخی پامالی ہیں اور انہیں بند کرنا چاہیے۔

شنجیانگ کے کیمپوں میں مارپیٹ اور بجلی کے جھٹکوں کے تشدد کا شکار ہونے والے افراد سے 26 مارچ کو ملاقات کے بعد پومپیو نے کہا، “ہم چینیوں کو یہ یقین دلانے  پر کام کر رہے ہیں کہ یہ ایک گھناؤنا فعل ہے اور اسے بند کیا جانا چاہیے۔”

گزشتہ موسم خزاں میں 26 ممالک سے تعلق رکھنے والے سکالروں نے ایک مشترکہ اعلامیے میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی چین میں اجتماعی نظربندی کی مذمت کی۔ انہوں نے “دستکاری کی تربیت” کے دعووں کو مسترد کیا۔

اِن سکالروں نے لکھا، “اِن کیمپوں میں زیرحراست ان افراد کی، جن میں سے زیادہ تر ویغور ہوتے ہیں شدید قسم کی دست درازی کی حدوں کو چھوتی ہوئی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں نفسیاتی دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ انہیں اپنی مادری زبان، مذہبی اعتقادات اور ثقافتی روایات کو ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔”