چینی کمیونسٹ پارٹی کے سائنس کی چوری کے طریقے

امریکہ اور سنگاپور میں قائم کمپنی، اواگو میں محققین نے وائرلیس کمیونیکیشن کو بہتر بنانے کے لیے ٹکنالوجی کی تیاری پر 20 برس سے زیادہ عرصہ صرف کیا۔ اور پھر کمپنی  کے ایک ملازم نے چینی حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ ٹکنالوجی چرا لی۔

امریکی عہدیداروں نے اس چوری کا حوالہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی ٹکنالوجی اور املاک دانش کی چوری کرنے کی “وسیع سوچ” کی کئی ایک مثالوں میں سے ایک مثال کے طور پر دیا۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد اپنی فوجی اور اقتصادی طاقت کو فروغ دینا، اور عالمگیر سائنسی غلبہ حاصل کرنا ہے۔

اس کوشش کا ایک حصہ  “ملٹری – سول کا آمیزہ” (ایم سی ایف) ہے۔ ایم سی ایف پورے معاشرے کو متحرک کرتا ہے۔  ہر ایک کاروبار، ہر ایک فرد کو چینی فوج کو جدید بنانے کے لیے کام کرنے پر مراعات دی جاتی ہیں، انہیں ساتھ ملایا جاتا ہے اور یہاں تک کہ انہیں اس کام میں شریک ہونے مجبور بھی کیا جاتا ہے۔

اس سے اُن سب کے لیے یعنی یونیورسٹیوں، نجی کمپنیوں اور دنیا کے ممالک کے لیے ایک ہی جیسے لا تعداد مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے چینی ہم منصبوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے شراکت کاری کر رہے ہوتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے مئی میں سی سی پی کی طلبا کے ویزوں کے غلط استعمال کی اہلیت کو محدود کرنے کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا تا کہ سی سی پی کو ایم سی ایف مقاصد کے لیے ابھرتی ہوئی نئی ٹکنالوجیاں حاصل کرنے سے باز رکھا جا سکے۔ امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ایم سی ایف مقاصد کے حصول سمیت، امریکی ٹکنالوجی کی 1,000 سے زائد چوریوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر کا ترجمہ:

چینی کمیونسٹ پارٹی، امریکہ کے تحقیقی اداروں، تعلیمی اداروں، اور نجی کمپنیوں کی انتہائی اہم ٹکنالوجیاں حاصل کرنے کی خاطر اُن کا استحصال کرکے اپنی افواج کو مضبوط بنانے کی کوشش  کر رہی ہے۔  اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اس ویب سائٹ پر جائیے: #MilitaryCivilFusion: https://t.co/Kh6Zfeviyv. pic.twitter.com/7cLf2Kg3UU

22 جولائی 2020 محکمہ خارجہ

سی سی پی  چینی شہریوں کو ساتھ ملا کر دوسروں کی تحقیق حآصل کر لیتی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ چینی شہریوں کو ساتھ ملاتی ہے، عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) میں تحقیق کو دوبارہ تخلیق کرنے کے لیے غیرملکی سائنس دانوں کو خفیہ طور پر پیسے دیتی ہے، اور پی آر سی کے فوجی اور اقتصادی ترقی کے مقاصد کے حصول کے لیے ٹکنالوجی اور معلومات چرانے کے لیے فوجی افسروں کو شہریوں کی حیثیت سے بیرونی ممالک میں بھیجتی ہے۔

امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر، کرسٹوفر رے نے 7 جولائی کو کہا کہ سی سی پی “کھلے پن سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے وہ سب کچھ کر رہی ہے جو وہ کر سکتی ہے”

ذیل میں کئی ایک مثالیں دی جا رہی ہیں:

غیر ملکی کمپنیوں کو ہیک کرنا

ایک حالیہ واقعے میں پی آر سی کی ریاستی سلامتی کی وزارت میں کام کرنے والے دو ہیکروں نے 11 ممالک میں جدید ٹکنالوجی کی صنعتوں کو نشانہ بنایا۔ امریکہ کے سرکاری وکیلوں نے 21 جولائی کی فرد جرم میں بتایا کہ نشانہ بننے والوں میں کووڈ-19 عالمی وبا کے لیے ویکسین تیار کرنے والی اور علاج دریافت کرنے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

ہیکنگ کی مہم ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک چلتی رہی۔ اس دوران مصنوعات سازی کی جدید ٹکنالوجی، ادویات سازی، دفاع اور دیگر شعبوں کو جن ممالک میں نشانہ بنایا گیا اُن میں امریکہ، آسٹریلیا، جرمنی، جاپان، سپین، جنوبی کوریا، سویڈن اور برطانیہ شامل ہیں۔

چینی شہریوں کو ساتھ ملانا

سی سی پی کے پاس،  پی آر سی کے فوجی اور اقتصادی ترقی کے مقاصد کے فروغ کے بے شمار ایسے پروگرام ہیں جن کے ذریعے بیرونی ممالک میں حساس ٹکنالوجی اور معلومات تک رسائی رکھنے والے غیر ملکی اور چینی شہریوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور مراعات دی جاتی ہیں۔

کرسٹوفر رے نے بتایا کہ چینی شہری اور امریکہ میں قانونی طور پر رہنے والے، ہانگجن ٹین نے سی سی پی کے مشہور “تھاؤزنڈ ٹیلنٹس پلان” نامی بھرتی کے ایک پروگرام میں درخواست دی اور امریکہ میں ٹکنالوجی کے بارے میں معلومات “جمع کرنے” اور “محفوظ رکھنے” کا حلف اٹھایا۔

جب اُس نے دسمبر 2018 میں اوکلاہوما کی ایک پٹرولیم کمپنی سے اپنی ملازمت چھوڑی تو ٹین کے پاس ایک ارب ڈالر مالیت کے تجارتی راز موجود تھے۔ محکمہ انصاف کے مطابق  ٹین نے چوری اور تجارتی رازوں کی منتقلی کے جرم  کا اقرار کیا۔ اُسے 24 ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی۔

جون میں 41 سالہ چینی شہری، ہاؤ جانگ کو تجارتی راز چوری کرنے کے لیے ایواگو کمپنی کے ایک سابقہ ملازم، وئے پینگ کے ساتھ سازش کرنے کا مجرم پایا گیا۔

غیرملکی ماہرین کو جھانسے دینا

بعض حالات میں بیجنگ کے بھرتی کے طریقہائے کاروں کے تحت غیرملکی سائنسدانوں کی ایک ایسے مرحلے پر چین میں اپنی تحقیق کی ازسرنو تخلیق کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جب اسی کام کے لیے امریکی حکومت اِن کو پہلے ہی سے فنڈ فراہم کر رہی ہوتی ہے۔

 شہر میں سڑک کے کنارے جمع صحافیوں کے بیچ میں سے گزرتا ہوا ایک آدمی (© Charles Krupa/AP Images)
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر چارلس لیبر، 30 جنوری کو بوسٹن میں عدالت سے باہر آ رہے ہیں۔ (© Charles Krupa/AP Images)

وفاق کے سرکاری وکلا کا کہنا ہے کہ سی سی پی کے “تھاؤزنڈ ٹیلنٹس پروگرام” کے تحت ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق، چارلس لیبر کو 50,000 ڈالر ماہانہ اور 15 لاکھ  ڈالر کی ادائیگی طے پائی تاکہ وہ ووہان یونیورسٹی آف ٹکنالوجی میں ایک تجربہ گاہ قائم کرسکیں۔ لیبر نے چینی حکومت کی طرف سے ملنے والی یہ رقومات، ہارورڈ یونیورسٹی یا انہیں مقامی طور پر فنڈ فراہم کرنے والے ادارے  یعنی امریکی محکمہ دفاع کو بتائے بغیر قبول کر لیں۔ اُن کا یہ فعل امریکی پالیسی اور قانون دونوں کی خلاف ورزی تھا۔

محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ لیبر پر جھوٹا، فرضی اور جعلی بیان دینے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

امریکہ کے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کی ایک حالیہ تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ 54 سائنسدانوں کو غیر ملکی حکومت سے اپنے روابط ظاہر نہ کرنے پر یا تو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے یا انہوں نے استغفے دے دیئے ہیں۔ این آئی ایچ کے زیر تفتیش 189 سائنسدانوں میں سے 93 فیصد سائنسدانوں کے پی آر سی کے ساتھ روابط تھے۔

 یانگ چنگ یی کی قریب سے لی گئی ایک تصویر (FBI)
یانگ چنگ یی (FBI)

فوجی وابستگیوں کو چھپانا

سرکاری وکلا کا کہنا ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی کی لیفٹننٹ، یانگ چنگ یی بوسٹن یونیورسٹی کے فزکس، کیمسٹری، اور حیاتیاتی طب سے متعلق انجنیئرنگ کے شعبوں میں تعلیم کے دوران دستاویزات چین بھیجتی رہیں۔

یی نے جھوٹ بولتے ہوئے ویزے کی ایک درخواست پر اپنی شناخت ایک طالبعلم کے طور پر کرائی اور فوج سے اپنی وابستگی کو چھپایا۔ اُن کو جن الزامات کا سامنا ہے اُن میں غیرملکی حکومت کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا الزام بھی شامل ہے۔