ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے ویغوروں اور دیگر مسلمان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی اجتماعی حراستیں درحقیقت یتیموں کی ایک ایسی نسل پیدا کر رہی ہیں جس کو اپنی ثقافت کا علم نہیں ہوگا۔
شنجیانگ، چین میں مسلمان اقلیتوں پر ہونے والے چینی ظلم کے موضوع پر 7 اگست کو محکمہ خارجہ میں پینل کی شکل میں ہونے والی ایک بحث میں ریڈیو فری ایشیا کی ویغور سروس کے علیم سیتوف نے کہا، “چینی حکومت ان بچوں کو یتیم خانوں میں لے جاتی ہے اور بنیادی طور پر وہاں ان کی ذہنی تطہیر کی جاتی ہے۔”
2017ء کے بعد شنجیانگ میں چینی حکام دس لاکھ سے زائد ویغوروں، نسلی قازقوں، نسلی کرغیزوں اور دیگر مسلمان نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو نظربند کر چکے ہیں۔ کیمپوں میں قیدیوں کو اپنی نسلی شناختیں اور مذہبی عقائد اور عبادات ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بعض زیرحراست افراد کو جنسی زیادتیوں سمیت، تشدد یا دیگر غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
اُن کے بچوں کو یتیم خانوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں انہیں حب الوطنی کے نعرے لگانے، مینڈرین چینی زبان سیکھنے اور اُن کے والدین کے مذہبی اعتقادات اور عبادات کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سیتوف ویغوروں کے مسائل پر تفصیلی تحقیق کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ ادارے “ویغوروں کی اگلی نسل کی پرورش کسی بھی قسم کی ویغور روایت، ویغور تعلیم یا اسلامی عقیدے کے بغیر کر رہے ہیں۔”

حتٰی کہ شنجیانگ میں حکام نے بچوں کے ناموں تک کو بھی اپنے اختیار میں لے رکھا ہے۔ قوانین کے تحت نوزائیدہ بچوں کے نام رکھتے وقت کچھ اسلامی ناموں پر پابندی لگا دی گئی ہے اور بچوں کو مذہبی تعلیم دینے پر سزائیں مقرر کر دی گئی ہیں۔
آزاد محقق ایڈریان زینز نے ایک حالیہ رپورٹ میں چینی حکومت کی ایک ایسی دستاویز کا حوالہ دیا ہے جس میں نسلی اقلیتوں کے خلاف ایک ایسی مہم پر بحث کی گئی ہے جس کا مقصد “اُن کے خاندانی نسب کے سلسلے کو توڑنا، اُن کی جڑیں کھوکھلی کرنا، اُن کے روابط کو ختم کرنا، اور اُن کی اصلیتوں کو مٹانا ہے۔”
ویغوروں کے انسانی حقوق کے نوری ترکل نے بھی محکمہ خارجہ کے پینل میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر چین شنجیانگ میں اپنی حکمت عملیوں میں کامیاب ہوگیا تو “ویغوروں کی نسلی اور قومی شناخت تباہ کر دی جائے گی۔”