محکمہ خارجہ کی ایک اعلٰی عہدیدار کے مطابق جابر حکومتیں ایسی چینی ٹکنالوجی خرید رہی ہیں جو انہیں اپنے شہریوں کا پیچھا کرنے اور اُن پر نظر رکھنے کے قابل بناتی ہیں۔
براعظمہائے امریکہ کی کونسل میں مغربی نصف کرہ ارض کے امور کی معاون وزیر خارجہ کمبرلی برائر نے اپنی ایک تقریر میں کہا، “چین ٹکنالوجی کی ایسی جانکاری برآمد کرتا ہے جو مطلق العنان حکومتوں کو ڈیجیٹل نگرانی کے ذریعے شہریوں کا پیچھا کرنے، انہیں اچھا یا برا صلہ دینے میں مدد کر سکتی ہے۔
تبتیوں، ویغوروں، نسلی قازقوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کی جاسوسی کرنے کی خاطر چین نے تبت اور شنجیانگ کے علاقوں میں اس ٹکنالوجی کا پہلے پہل استعمال کیا۔
سنٹر فار نیو امیریکن سکیورٹی کی “چین کے بیلٹ اور روڈ کے جائزے” کے عنوان سے تیار کی جانے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق نگرانی اور پیچھا کرنے کے جدید آلات برآمد کرنے کے معاہدے اکثر چین کے بیلٹ اور روڈ کا حصہ ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں زمبابوے کی مثال دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بیلٹ اور روڈ تجارتی سمجھوتے کے ایک حصہ کے طور پر زمبابوے چین کا چہرے کی شناخت کا نظام درآمد کر رہا ہے اور اس کا امکان ہے کہ وہ اِس نظام کو ایسے طریقوں سے استعمال کرے گا جن سے مطلق العنانیت پر ہونے والے اخراجات کم ہو جائیں گے۔
چین اپنی فلاسفی برآمد کرتا ہے
ایڈریان شہباز فریڈم ہاؤس میں ٹکنالوجی اور جمہوریت کے شعبے کے ریسرچ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ٹکنالوجی اور مطلق العنانیت کے درمیان تعلق کے بارے میں فروری کے ایک سروے میں کہتے ہیں کہ “اقتصادی ترقی اور انٹرنیٹ کنٹرول کا ‘چینی ماڈل’ دنیا بھر کے مطلق العنان سوچ رکھنے والے لیڈروں میں زیادہ پرکشش بنتا جا رہا ہے۔”

فریڈم ہاؤس کی “2018 کی انٹرنیٹ کی آزادی” کی رپورٹ کے مطابق جن 65 ممالک کا تجزیہ کیا گیا اُن میں سے 18 ممالک ییٹو، ہِک وژن اور کلاؤڈ واک جیسی چینی کمپنیوں کے سسٹم خرید چکے ہیں۔ یہ کمپنیاں “مصنوعی ذہانت اور چہرے کی شناخت میں ہونے والی پیشرفتوں کو باہم ملا کر ایسے سسٹم تیار کرتی ہیں جن سے ‘امن عامہ’ کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی جا سکے۔” اِن سب کمپنیوں نے شنجیانگ میں ویغوروں کی نگرانی کرتے ہوئے اپنی ٹکنالوجی کو جدید بنایا۔
فریڈم ہاؤس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، “بیجنگ نے اس ماڈل کو بیرون ملک پھیلانے کی خاطرغیر ممالک کے سرکاری اہل کاروں کی وسیع پیمانے پر تربیتیں کر نے کے [اور] مطلق العنان حکومتوں کو یہ ٹکنالوجی فراہم کرنے کے اقدامات اٹھائے۔”
نگرانی کے نظاموں کی خریداری کرنے والے ممالک میں وینیز ویلا بھی شامل ہے۔ وینیز ویلا نے چینی ٹیلی کام کمپنی زیڈ ٹی ای کو قومی شناختی کارڈ تیار کرنے کا ٹھیکہ دیا۔ کمبرلی برائر کے مطابق یہ کارڈ ایک ایسے ڈیٹا بیس سے منسلک ہوتا ہے جسے حکومت وینیز ویلا کے شہریوں کو قابو میں رکھنے اور اُن پر ظلم ڈھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ایک تاریک مستقبل
چینی صدر شی جن پھنگ نے 2017ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 19ویں کانگریس میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ چین کی حکومت کے ماڈل کا “یہ راستہ، یہ نظریہ، یہ نظام دوسرے ممالک اور اقوام کے لیے ایک نیا متبادل پیش کرتا ہے۔”
فریڈم ہاؤس کی رپورٹ اسے مختلف انداز سے بیان کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ چین “دنیا کو ٹکنالوجی کے اپنے یوٹوپیائی یعنی خیالی تصور میں ڈھال رہا ہے۔”