امریکہ خطے میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے چین کے صوبے شنجیانگ میں کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کے خطرات سے خبردار کررہا ہے۔
امریکہ کے خارجہ، تجارت، خزانے اور ہوم لینڈ سکیورٹی (اندرون ملک سلامتی) کے محکموں نے یکم جولائی کو شنجیانگ سپلائی چین بزنس ایڈوائزری (شنجیانگ رسدی سلسلے سے متعلق ایک تجارتی ہدایت نامہ) جاری کیا جس میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث چینی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے کے قانونی، معاشی اور ساکھ کو نقصان پہنچانے والے خطرات سے متعلق کمپنیوں کو متنبہ کیا گیا ہے۔
یکم جولائی کو ٹی وی چینل فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا، “کوئی بھی ایسی مصنوعات، سستی مصنوعات، نہیں خریدنا چاہتا جو مغربی چین میں غلامانہ مشقت سے کام لیتے ہوئے تیارکروائی گئی ہوں۔ ہم نے ہر ایک تجارتی (کمپنی) سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے رسد کے سلسلے کا جائزہ لے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس قسم کی کوئی چیز (ہمارے ہاں) نہ آئے۔ ہم نے [تجارتی کمپنیوں] کو اُن اقدامات کے بارے میں بھی خبردار کر دیا ہے جو ہم اٹھا سکتے ہیں۔”
یہ ہدایت نامہ شنجیانگ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کو انسانی حقوق کی پامالیوں سے باز رکھنے کی امریکی حکومت کی وسیع تر کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ دیگر اقدامات میں شنجیانگ میں سی سی پی کے عہدیداروں پر پابندیاں لگانا، بعض چینی کاروباروں کی امریکی سامان اور ٹکنالوجی تک رسائی کو محدود کرنا، اور جبری مشقت کے ذریعے تیار کردہ امریکہ آنے والی مصنوعات کو ضبط کرنا شامل ہیں۔
The PRC's human rights abuses in Xinjiang put businesses at risk of exposing their supply chains to forced labor and other abuses. Businesses must do their due diligence to avoid reputational, economic, and legal risks. Don’t be complicit.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) July 1, 2020
اپریل 2017 سے لے کر اب تک، سی سی پی نے شنجیانگ میں ویغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے خلاف جبر کی ایک مہم چلا رکھی ہے۔ سی سی پی 10 لاکھ سے زائد افراد کو نظربند کر چکی ہے اور بہت سے لوگوں کو فیکٹریوں میں کام کرنے اور اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور کر چکی ہے۔ کچھ قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے انڈر سیکرٹری، کیتھ کریچ نے یکم جولائی کو کاروباری اداروں کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ کمپنیوں کو شنجیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے آگاہ ہونا چاہیے اور زیادتیوں میں ملوث کمپنیوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ کریچ کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو شنجیانگ سے منسلک کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری سے جڑے خطرات کا جائزہ لینا چاہیے اور اُن کو ذیل میں دیئے گئے کاموں میں شامل ہونے سے اجتناب کرنا چاہیے:۔
- شنجیانگ ّمیں چینی حکومت کے لیے نگرانی کے آلات تیار کرنے میں مدد کرنا۔
- شنجیانگ کی افرادی قوت یا سامان پر انحصار کرنا یا چین میں جبری مشقت استعمال کرنے والی کمپنیوں پر انحصار کرنا۔
- ویغور یا دیگر اقلیتوں کی نظربندی کے مقامات کے قرب و جوار میں عمارات یا فیکٹریوں کی تعمیر میں مدد فراہم کرنا ۔
- بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسے اداروں کو مالی اعانت فراہم کرنا جو زیادتیوں کو ممکن بناتے ہیں۔
دریں اثنا، امریکی کسٹمز اور سرحدی تحفظ کے محکمے (سی بی پی) نے یکم جولائی کو اعلان کیا کہ نیو یارک / نیوآرک کی بندرگاہ پر افسران نے شنجیانگ سے آنے والی انسانی بالوں سے بنی مصنوعات کی ایک کھیپ کو روکا۔ سی بی پی نے بتایا کہ اِن مصنوعات پر جبری مشقت کے ذریعے تیار کیے جانے کا شبہ ہے۔
