چین میں صنفی تفاوت غریب عورتوں کے بیوپار کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ غریب عورتوں کو اغوا کیا جاتا ہے یا انہیں لالچ دے کر چین لے جایا جاتا ہے اور انہیں طوائفیں یا غلام دلہنیں بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی سال 2019 کی انسانی بیوپار کی رپورٹ کے مطابق، انسانوں کا کاروبار کرنے والے “روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد میں جنوبی ایشیائی، جنوب مشرقی ایشیائی، شمال مشرقی ایشیائی، اور افریقی عورتوں کی چینی مردوں کے ساتھ زبردستی اور جعلی شادیاں کرانے میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔”
چین کی کل آبادی 1.4 ارب ہے۔ اس میں سے چینی مردوں کی تعداد چینی عورتوں سے 3 کروڑ 34 لاکھ زیادہ ہے۔ یہ صنفی فرق شادی کی عمر کے مردوں اور عورتوں میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سال 2018 میں 15 سے 29 سال کے افراد میں ہر سو عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد 280 تھی جو کہ بالترتیب ایک اور تین کا تناسب بنتا ہے۔
2026ء تک 15 سے 29 سال کے افراد میں مردوں اور عورتوں کی تعداد میں یہ تناسب بڑھکر تین سے زیادہ ہو جائے گا اور یہ تناسب آنے والی کئی ایک دہائیوں میں متوازن نہیں ہو پائے گا۔

بیوی کی قیمت تیس ہزار ڈالر
اس رپورٹ کے مطابق، “چینی حکومت کی بچے پیدا کرنے کی تعداد محدود کرنے کی پالیسی اور بیٹوں کی پیدائش کے لیے ثقافتی ترجیح” کا نتیجہ صنفی انتخاب کی بنیاد پر اسقاط حمل کروانے اور مردوں اور عورتوں کی تعداد میں عدم برابری کی صورت میں سامنے آیا۔
اس کے نتیجے میں، خاص طورر پر غریب اور دیہاتی چینی مردوں کو شادی کے لیے عورتیں نہیں ملتیں۔ بعض چینی مرد دلہنوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے گھروں کی تعمیر پر کثیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ اس رجحان کی وجہ سے گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
او ای سی ڈی کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکیوں کے تقریباً سات فیصد کے مقابلے میں چینی گھرانے اپنی فاضل آمدنی کا 37 فیصد بچاتے ہیں۔ 1990 میں چینی گھرانوں کی بچت کی شرح کے مقابلے میں یہ شرح دگنی ہے۔ چینی محققین، شانگ جن وی اور شیاؤبو ژانگ کا کہنا ہے کہ بچت میں اس اضافے کے نصف کا مقصد بیٹوں کی شادی کرنے کے مواقعوں میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ بیٹے کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات میں “دلہن کی قیمت بھی شامل ہوتی ہے جو بعض اوقات 30,000 ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔
روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق زیادہ بچتوں کا مطلب صارفین کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقومات میں کمی ہے جو معاشی ماہرین کے خیال میں امریکہ کے ساتھ چین کے تجارتی خصارے کا سبب بنتی ہے۔
بعض چینی مرد شادی کروانے والے ایجنٹوں کو غیرملکی عورتوں سے شادی کروانے کے لیے بھاری فیس ادا کرتے ہیں۔ اِن میں سے بہت سے اپنے قرض کم کرنے کی خاطر اپنی “بیویوں” کو یا تو جسم فروشی پر یا پھر کھیتوں میں مزدوری کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
پاکستان میں لوگوں کو سمگلنگ کرنے والے ایک گینگ کے ممبروں کی حالیہ گرفتاری اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ چین میں عورتوں کی کم تعداد کا مسئلہ چین کی سرحدوں سے باہر نکل کر دوسرے ممالک تک پھیل رہا ہے۔ انسانوں کے بیوپاری پاکستان کی چھوٹی اور پسماندہ عیسائی کمیونٹی کی عورتوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ برما میں یہ بیوپاری کاچین اقلیت کی عورتوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ اس اقلیت کے زیادہ تر لوگ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق، قانون کا نفاذ کرنے والے چینی اہلکار غیرملکی عورتوں کو جسم فروشی کے جرائم میں چار ماہ تک حراست میں رکھتے ہیں اور اس کے بعد امیگریشن قوانین کی خلاف ورزیوں کے جرم میں انہیں ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ محکمہ خارجہ کی سفارشات کے مطابق [چینی] حکام کو جنسی بیوپار کے لیے سمگل کی جانے والی عورتوں کی نشان دہی کے لیے مقرر کردہ اشاریوں کی روشنی میں ان کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے اور انہیں ان جرائم کا شکار ہونے والی عورتوں کو فوری طور پر حفاظتی خدمات مہیا کرنے والے اداروں کے سپرد کرنا چاہیے۔