Lone figure walking along narrow street in darkness (© Kevin Frayer/Getty Images)
کاشغر، شنجیانگ میں ایک ویغور النسل آدمی مقامی تھانے کے قریب ایک گلی سے گزر رہا ہے۔ ویغور شنجیانگ میں جہاں کہیں بھی جائیں اُن پر نظر رکھی جاتی ہے اور اُن کا پیچھا کیا جاتا ہے۔ (© Kevin Frayer/Getty Images)

چہرے مہرے کی پہچان کرنے والی ٹکنالوجی سے لیس سکیورٹی کیمرے، آپ کی ہر ایک حرکت پر نظر رکھنے والے پولیس سٹیشن، مذہبی آزادی پر پابندیاں، آپ کے گھروں میں رہنے والے اجنبی۔

چین کے شنجیانگ صوبے میں زندگی اِن چیزوں سے عبارت ہے۔

مسلمان اقلیتوں کی نسلی، ثقافتی، لسانی اور مذہبی شناختوں کو مٹانے کے لیے چین نے ایک مہم چلا رکھی ہے۔ دس لاکھ سے زائد ویغور، قازق اور مسلمان اقلیتی گروہوں کے افراد کیمپوں میں زیر حراست ہیں۔ مبینہ طور پر اِن کیمپوں میں بہت سے لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے، اُن پر تشدد کیا جاتا ہے، اسلام چھورنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے پراپیگنڈے کو زبانی یاد کرایا جاتا ہے۔

مگر حراستی کیمپوں سے بچ جا نے والے افراد کے لیے بھی شنجیانگ ایک ایسا کھلا علاقہ بن کر رہے گیا ہے جہاں نگرانی کرنے کی جدید اور پرانی ٹکنالجیوں کا ملا جلا استعمال کیا جاتا ہے اور ڈرانے دھمکانے والے حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔

نگرانی میں جدید ٹکنالوجی کا استعمال

People walking under surveillance cameras (© Ben Blanchard/Reuters)
جنوری 2019 میں ویغوروں کے خودمختار علاقے شنجیانگ کے شہر کاشغر میں عید گاہ مسجد سے باہر نکلنے والے امام اور سرکاری اہل کار سکیورٹی کیمروں کے نیچے سے گزر رہے ہیں۔ (© Ben Blanchard/Reuters)

ویغور اور دیگر اقلیتوں کی مستقل نگرانی کی جاتی ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق محمکہ خارجہ کی ایک رپورٹ میں اُن بہت سے طریقوں کو بیان کی گیا ہے جن کے تحت چینی حکومت شنجیانگ میں اپنے شہریوں کی نگرانی اور پیچھا کرتی ہے۔

  • کیمرے: سکیورٹی کیمروں کے ایک بہت  بڑے نیٹ ورک کے ذریعے سڑکوں، دکانوں اور مساجد کی نگرانی کی جاتی ہے۔
  • ڈیٹا بیس: شنجیانگ میں ویغور مسلمانوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کی خاطر مصنوعی ذہانت کا ایک ایسا سافٹ ویئر استعمال کیا جاتا ہے جو چہرے، آواز، اور چال کی شناخت کرتا ہے۔
  • مواصلات: ٹیلی فون کالوں، ٹیکسٹ میسیجوں، ای میلوں، سوشل میڈیا اور دیگر اقسام کے ڈیجیٹل پیغامات و روابط کو وسیع  پیمانے پر کنٹرول کیا جاتا ہے اور اِن پر نظر رکھی جاتی ہے۔
  • ناکے: شنجیانگ میں رہنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر 500 میٹر کے فاصلے پر اپنے شناختی کارڈ دکھائیں، چہرے مہرے کی پہچان والے کیمروں کے سامنے کھڑے ہوں اور خاص قسم کے سافٹ ویئر سے سکین کرنے کے لیے اپنے موبائل فون [سرکاری اہلکاروں کے] حوالے کریں۔
  • بائیو میٹرک: اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسمانی معائنہ کروائیں جس کے دوران حکومتی اہل کار ڈی این اے اکٹھا کرتے ہیں، آنکھوں کو سکین کرتے ہیں اور انگلیوں کے نشان یعنی فنگر پرنٹ لیتے ہیں۔

ویغوروں کی نگرانی کر کے چینی کمپنیاں اربوں کما چکی ہیں۔ اس معاملے پر اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ویغوروں کی نگرانی اور اُن کی نقل و حمل پر نظر رکھنے کے لیے سینس ٹائم، یی تو، میگ وائی، ہِک ویژن اور کلاؤڈ واک جیسی کمپنیوں نے خاص قسم کے سافٹ ویئر تیار کیے۔

کم ٹکنالوجی والی نگرانی

اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ویغور اپنے گھروں میں بھی اکیلے نہیں ہوتے۔ اُن کے لیے چین کے حکومتی اہلکاروں کو اپنے گھروں میں ٹھہرانا لازمی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انہیں [ویغوروں کو] اسلامی عبادات کرنے سے روکا جائے۔

Two men standing inside a shadowy home (© Kevin Frayer/Getty Images)
2016ء میں چین کے صوبے شنجیانگ میں ویغور مرد۔ ویغور شاذ و نادر ہی اکیلے ہوتے ہیں۔ (© Kevin Frayer/Getty Images)

ویغوروں کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔ “رشتہ دار” کہلانے والے یہ حکومتی اہلکار چینی کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کو عملی طور پر نافذ کرتے ہیں اور اپنے میزبانوں کے “انتہاپسندانہ” رجحانات پر نظر رکھتے ہیں۔ مثلاً: کیا ویغوروں نے اپنے گھر میں قرآن پاک کا کوئی نسخہ رکھا ہوا ہے؟ نماز پڑھنے والا مصلٰی رکھا ہے؟ اُنہیں جب شراب اور خنزیر کے گوشت کی پیشکس کی جاتی ہے تو کیا وہ جھجک کا مظاہرہ کرتے ہیں؟

ایشیا سوسائٹی کے امریکہ اور چین کے تعلقات کے مرکز کی جانب سے آن لائن شائع کیے جانے والے رسالے “چائنا فائل” میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق نگرانی کرنے والے اِن اہلکاروں کو ویغور گھرانوں پر مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔ وہ اِن کی وفاداری اور مذہبی عبادات اور عقائد کے بارے میں اعلٰی حکام کو رپورٹیں بھجوانے کے ساتھ ساتھ  اِن ویغوروں کو حراستی کیمپوں میں بھیجنے  کے بارے میں اپنی سفارشات بھجواتے ہیں۔

چین کے طول و عرض اور بیرونی ممالک میں ویغوروں کا پیچھا کرنا

امریکہ میں رہنے والے فرقات جودت ایک ویغور ہیں اور سافٹ ویئر انجنیئر ہیں۔ انہوں نے شنجیانگ میں صورت حال کے بارے میں  مارچ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی۔ فرقات جودت کا کہنا ہے کہ چین کی ویغوروں کی نگرانی کا دائرہ کار شنجیانگ سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر بیجنگ اور شنگھائی کے میٹرو سٹیشنوں پر چہروں کی شناخت اور موبائل فونوں کی سکیننگ کرنے والی مشینیں لگی ہوئی ہیں۔     

Three women standing in an intersection (© Aly Song /Reuters)
2014ء میں ویغور عورتیں شنگھائی میں۔ چینی حکومت نگرانی کی اعلٰی ترین ٹکنالوجی کے ذریعے ویغوروں کا ملک بھر میں پیچھا کرتی ہے۔ (© Aly Song /Reuters)

چین کی ویغوروں کی نگرانی اس کی سرحدوں سے  بھی باہر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس طرح چین دوسرے ملکوں میں مقیم ویغوروں کو ہراساں کر کے اور انہیں دھمکیاں دے کر اُن ممالک کی خود مختاری پر حملہ کر رہا ہے۔

2018ء میں شنجیانگ سے بھاگ کر امریکہ آنے والی مہر گل ترسن  بتاتی ہیں کہ اُن کا اُس وقت سے پیچھا کیا جا رہا ہے  جب سے انہوں نے حراستی کیمپوں میں اپنے حالات کے بارے میں سرعام  بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترسن نے 2018ء میں کہا، “میں یہ جان کر خوفزدہ ہوگئی کہ چینی حکومت اتنی دور سے بھی مجھے دھمکیاں دے سکتی ہے۔”