لحامجب بوریجن نے اپنے لوگوں کے خلاف چینی مظالم کی تفصیلات ایک کتاب میں شائع کیں اور آج وہ قید میں ہیں۔

لحامجب کا تعلق چین کے علاقے اندرونی منگولیا سے ہے۔ اس علاقے کی سرحد آزاد منگولیا سے ملتی ہے۔ اُن کی کتاب میں نسلی منگولوں کے دلخراش حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ چین کے ثقافتی انقلاب کے دوران کمیونسٹ پارٹی کی مدد سے نسلی منگولوں کے خلاف جبر و تشدد کی مہم چلائی گئی۔

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ

75 سالہ منگولین تاریخ دان اور مصنف مسٹر لحامجب اے بوریجن کو اُن کے گھر میں نظربند کر دیا گیا ہے۔ اُن پر “قومی علیحدگی پسندی” اور “قومی وحدت کو سبوتاژ”  کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔  

لحامجب کی کتاب میں چینی حکومت پر نسل کشی اور تشدد کی ایک منظم مہم چلانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ چینی حکام نے لحامجب پر مندرجہ الزامات عائد کیے ہیں:

  • “قومی علیحدگی پسندگی”
  • “قومی وحدت کا سبوتاژ”
  • “[کتاب کی] غیر قانونی اشاعت اورتقسیم”

چین نے اُن پر خفیہ مقدمہ چلایا۔

لحامجب نے اِن الفاظ کی تفصیل منگولین حقوق کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم کو بتائی۔

لحامجب نے بتایا، “میں نے اپنا دفاع یہ سوالات پوچھتے ہوئے کیا کہ آیا “قومی وحدت کو سبوتاژ”کرنے والے وہ لوگ ہیں جو  جنوبی منگولیا میں نسل کشی کے مرتکب ہوئے یا مجھ جیسے وہ لوگ ہیں جو اس نسل کشی کی بات کرتے ہیں۔”

اندرونی منگولیا میں بڑھتا ہوا تناؤ

لحامجب کا شمار اندرونی منگولیا میں حال ہی میں گرفتار کیے گئے بہت سے نسلی منگولین مصنفین میں ہوتا ہے۔ ریڈیو فری ایشیا کی رپورٹوں کے مطابق خطے میں زمین کے حقوق پر کان کنی اور جنگلات کی کمپنیوں اور مقامی گلہ بانوں کے درمیان پیدا ہونا والا تناؤ بڑھ  رہا ہے۔

Shepherd standing in field with sheep and coal plant in background (© Ryan Pyle/Corbis/Getty Images)
باؤتو، اندورنی منگولیا کے نزدیک کوئلے سے چلنے والے بجلی کے ایک پلانٹ کے قریب ایک چرواہا۔ یہاں پر عموماً صنعتی اور گلہ بانی طرزہائے زندگی کے درمیان تصادم دکھائی دیتا ہے۔ (© Ryan Pyle/Corbis/Getty Images)

بیرونی ممالک میں رہنے والے منگولین، “چینی حکومت پر چینی سرحدوں کے اندر منگولین نسل کے افراد کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور اُن کے ساتھ روا رکھے جانے والی منظم  ادارہ جاتی نسلی پرستی کے ساتھ ساتھ اُن کی روائتی اور خانہ بدوش طرز  زندگی کو ختم کرنے کے لیے طویل مدت سے جاری پالیسیوں” کے الزامات بھی لگاتے ہیں۔”

یہ الزامات شنجیانگ کی صورت حال سے ملتے جلتے ہیں۔ شنجیانگ میں بیجنگ کی حکومت چینی وطن پرستی کو فروغ دیتی ہے اور ویغوروں، نسلی قازقوں اور کرغیزوں اور دیگر مسلمان اقلیتوں کی نسلی شناختوں، ثقافتی اور مذہبی روایات کو منظم طریقے سے مٹا رہی ہے۔ 

چین کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر ظلم کے موضوع پر 6 جون کو ہونے والی ایک کانفرنس کو امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے سفیر، سیم براؤن بیک نے بتایا، “چینی حکومت کی کاروائیوں کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ نسلی اور مذہبی لحاظ سے منفرد قوموں کو بربریت اور جبر سے زیرتسلط رکھا جائے۔ ”

جہاں تک لحامجب کا تعلق ہے، ادب اور انسانی حقوق کی “پین امیریکا” نامی تنظیم اُن کی گرفتاری کو “اظہار آزادی اور جنوبی منگولیا کی تاریخ پر کی جانے والی تحقیق پر ایک مسلسل حملہ” قرار دیتی ہے۔

آخر میں لحامجب نے کہا، “سیاسی خود مختاری کو تو چھوڑیئے ایک طرف، ہم منگولیائی لوگوں کو نہ توبنیادی حقوق حاصل ہیں اور نہ ہی بنیادی آزادیاں۔”